کیا یہ ملک اس ایڈونچر کی استطاعت رکھتا تھا؟

کیا یہ ملک اس ایڈونچر کی استطاعت رکھتا تھا؟
وطن عزیز کو تجربہ گاہ سمجھ کر نت نئے اقسام کے تجربے کرنے والوں نے ایک اور تجربہ کرتے ہوئے عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کو پاکستان پر مسلط تو کر دیا ہے لیکن اس نئے تجربے کی بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی۔ جس انداز سے تحریک انصاف کی حکومت نے ابتدائی ایام سے ہی حماقتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا ہرچند مشکل نہیں ہے کہ تحریک انصاف ہرگز بھی ایک سنجیدہ نوعیت یا عمل پسندی کی سیاست کرنے والی جماعت نہیں ہے اور اس کی سیاست کا محور محض پرفریب نعروں اور اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں تک محدود ہے۔

کابینہ نے مشرّف کے معاملے میں چپ سادھنے میں ہی عافیت جانی

تحریک انصاف کی کابینہ کی پہلی میٹنگ میں سارا وقت نواز شریف اور مریم نواز پر مزید کرپشن کے کیسز ڈھونڈنے اور ان دونوں کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے پر صرف ہوا۔ شاید یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ جیل میں قید افراد کے نام وفاقی کابینہ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے، گویا کہ نواز شریف یا مریم نواز جیل سے کوئی سرنگ کھود کر ائرپورٹ تک پہنچ کر فرار ہونا چاہتے تھے۔ اسی کابینہ نے پرویز مشرف کے کیسوں کے متعلق یا اسے وطن واپس لانے کے معاملے پر چپ سادھنے میں ہی عافیت جانی۔

حکومت میں آنے کے بعد چند کارنامے

محترم عمران خان نے جس جلدبازی کا مظائرہ کرتے ہوئے امریکہ کے فارن سیکرٹری کی کال وصول کی اور پھر ڈو مور کا بھاشن سننے کے بعد اور امریکی سیکرٹری خارجہ کے مؤقف کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے بعد دنیا میں جو جگ ہنسائی کروائی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ معروف صحافی سلیم صافی اور عاصمہ شیرازی کے خلاف جس طرح تحریک انصاف کے ہمدردوں نے نفرت پر مبنی سوشل میڈیا مہم چلائی، اس کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اب ہم جس پاکستان میں بستے ہیں وہاں حاکم وقت اور اس کی جماعت پر تنقید کرنا گناہ کبیرہ بن چکا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس سے بنی گالہ روزانہ ہیلی کاپٹر کا سفر اور پھر وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا یہ ارشاد کہ ہیلی کاپٹر پر سفر سے خرچہ کم ہوتا ہے اور یہ ہوائی سفر محض پچپن روپے فی کلومیٹر پڑتا ہے، ایک ایسا لطیفہ بن چکا ہے کہ جس پر اب ہنسنے کے بجائے سر پیٹنے کا دل کرتا ہے کہ "سائنسدانوں" نے کس قسم کے لوگوں کو عوام پر مسلط کر دیا۔ خاور مانیکا کو ناکے پر روکے جانے پر ڈی پی او پاکپتن کے ٹرانسفر کا معاملہ ہو یا شیخ رشید کی ریلوے کے اعلیٰ افسران سے بدتمیزی کی بات، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ہوائی جہاز کے سفر کے شوق کی بات ہو یا فیاض الحسن چوہان کا ایک ہزار ارب ڈالر کی ملک سے منی لانڈرنگ ہونے کا شگوفہ، کسی بھی اعتبار سے تحریک انصاف قابل ترین افراد پر مشتمل سیاسی جماعت نہیں دکھائی دیتی ہے۔



تحریک انصاف آج بھی اپوزیشن کی سیاست کے مائنڈ سیٹ سے باہر آنے کو تیار نہیں

ملکی تاریخ میں جس قدر میڈیا کی بھرپور تائید اور اپر مڈل کلاس کے افراد کی اندھی عقیدت اس جماعت کو ملی، شاید ہی کسی اور سیاسی جماعت کو ملی ہو اور پھر جس طریقے سے پلیٹ میں رکھ کر عام انتخابات تحریک انصاف کے حوالے کیے گئے اس کی مثال بھی اس صدی کی ملکی تاریخ میں شاید ہی کہیں موجود ہو۔ لیکن شومئی قسمت کہ تحریک انصاف آج بھی اپوزیشن کی سیاست کے مائنڈ سیٹ سے باہر آنے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی اس جماعت کے پاس ملکی مسائل کے تدارک کے لئے ٹھوس تجاویز موجود ہیں۔

وطن عزیز کی لوٹی ہوئی دولت ٹرک کی لال بتی

مثال کے طور پر ملکی معیثت کو مضبوط کرنے کے لئے اس جماعت کا وژن یہ ہے کہ لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لائی جائے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے چندہ اور خیرات اکھٹی کر کے معیثت کو مزید دوام بخشا جائے۔ وطن عزیز کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی کہانی ٹرک کی وہ بتی ہے جسے ہر فوجی آمر اور اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی نے عوام کو سرابوں کے تعاقب میں مبتلا رکھنے کے لئے سنبھال رکھا ہے اور ہر مخصوص عرصے کے بعد اسے دہرا کر عوام کو سبز باغ دکھا دیئے جاتے ہیں۔ حیرت عوام کے اس حصے پر بھی ہے جو اس دیو مالائی اور الف لیلوی داستان پر من و عن ایمان لاتے ہوئے نواز شریف کے اربوں ڈالرز وطن واپس آنے کا سوچ سوچ کر تو خوش ہوتا ہے لیکن جہانگیر ترین، علیم خان، شیخ رشید اور اس جیسے سینکڑوں افراد کے ناجائز اور کالے دھن کے معاملے پر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ ویسے ہماری 'اداروں' کے کاروبار کا حجم بھی 31 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے اور اگر یہ محض پندرہ ارب ڈالرز ہی ملکی قرضے اتارنے یا معیشت کو درست کرنے کے لئے دان کر دیں تو عمران خان یا کسی اور سیاسی کٹھ پتلی کو عوام کو بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے سے متعلق فرضی کہانیاں سنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ویسے بھی کہاوت ہے کہ احتساب ہمیشہ گھر سے شروع کرنا چاہیے۔

گذشتہ حکومت جتنی ہی کارکردگی دکھا دی تو یہ بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا

خیر ہم شاید اپنی زندگیوں میں پرویز مشرف جیسے مفرور آمر کا احتساب ہوتا نہ دیکھ پائیں گے تو کاروباری سرگرمیوں کے آڈٹ کی بات تو ایسے میں محض ایک خواب سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لئے عمران خان صاحب محض احتساب کی بڑھکیں لگاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اپنے سیاسی مخالفین اور سول بیوروکریسی میں موجود ان کے ہمدردوں پر میڈیا اور عوام کی توجہ برقرار رکھنے کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں کر پائیں گے۔ شیخ رشید، علیم خان اور ان جیسے دیگر وزرا اور مشیروں کی موجودگی میں اگر کسی وزارت یا محکمے نے صرف گذشتہ حکومت جتنی ہی کارکردگی دکھا دی تو یہ بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کی داخلہ پالیسی اور وزارت قانون سے چونکہ تحریک انصاف کا کوئی تعلق نہیں ہے اور بالواسطہ طور پر انہیں دفاعی بیوروکریسی ہی چلائے گی اس لئے اس ضمن میں تحریک انصاف یا عمران خان سے کسی بھی قسم کی توقعات وابستہ کرنا یا ان پر تنقید کرنا محض وقت کا زیاں ہے۔

عدلیہ، الیکشن کمیشن اور نیب جیسے اداروں کی ساکھ بھی بری طرح مجروح ہو چکی ہے

بہرحال اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ عوام میں سیاسی بنیادوں پر خلیج مزید بڑھتی جا رہی ہے اور تحریک انصاف کے طرز سیاست کی بدولت معاشرے میں برداشت کا فقدان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک ایسا سماج جو پہلے ہی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا شکار ہو کر بٹا ہوا ہو اور جہاں اختلاف رائے کو دشمنی سمجھا جاتا ہو وہاں یہ نئی سیاسی تقسیم ہرگز بھی صحت مند مکالمے کے فروغ کا باعث نہیں بنے گی اور معاشرے کو مزید تقسیم کرتی چلی جائے گی۔ انتخابات کو مینیج کرنے کے لئے اور نواز شریف کو سیاست سے مائنس کرنے کے چکر میں عدلیہ، الیکشن کمیشن اور نیب جیسے اداروں کی ساکھ بھی بری طرح مجروح ہو چکی ہے۔ پراپیگینڈے اور نفرت کے دم پر ایک ایسی نسل کو بھی پروان چڑھا دیا گیا ہے جو اختلاف کو عناد سمجھتے ہوئے سیاسی مخالفین اور ناقدین سے اسی قسم کی نفرت کرتی ہے جیسا کہ طالبان اور طالبانی سوچ والے اپنے ناقدین سے کرتے ہیں۔

کیا یہ ملک اس ایڈونچر کی استطاعت رکھتا تھا؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی میدان میں اکھاڑ پچھاڑ کر کے اور متنازع انتخابات کے ذریعے عمران خان کو مسند اقتدار پر پہنچانے والوں کا یہ ایڈونچر کیا اس قدر رسک اٹھانے کی استطاعت رکھتا تھا؟ کیونکہ اب نادیدہ قوتوں اور عمران خان کے پاس ریاستی بیانیوں کی ناکامی اور معاشی ناکامیوں کا بوجھ ڈالنے کے لئے نواز شریف میسر نہیں ہے۔ اگر ان کا اشتراک وطن عزیز کو مسائل کی دلدل سے باہر لے جا سکتا تو شاید اس قسم کے پہلے کیے گئے تجربے کبھی ناکام نہ ہوتے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان پر مہربان دست شفقت اگر کل انہیں بھی مائنس کر کے کسی نئی کٹھ پتلی کو لا کر ایک نیا تجربہ کرنے میں مشغول ہو گیا تو کیا پھر وطن عزیز ہمیشہ ہی ایک تجربہ گاہ بنا رہے گا جہاں کچھ قوتیں اپنی مرضی کی کٹھ پتلیاں لا کر ہمیشہ ایک ہی قسم کا تجربہ کر کے مختلف نتائج کی امید لگائے بیٹھی رہیں گی؟

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔