حافظ آباد: حافظِ قرآن بچوں کے باپ پر قرآن پاک کے نسخے جلانے کا الزام، مشتعل مظاہرین نے شہر بند کر دیا

حافظ آباد: حافظِ قرآن بچوں کے باپ پر قرآن پاک کے نسخے جلانے کا الزام، مشتعل مظاہرین نے شہر بند کر دیا
گزشتہ چند سالوں سے معاشرے کے اندر شدت پسندی کا بویا گیا بیج اب ایک تن آور درخت بن چکا ہے جس کی جڑیں کراچی سے کشمیر تک پھیل چکی ہیں اور ملک پاکستان کی بنیادوں کو ہر گزرتے دن کیساتھ کھوکھلا کرتی جارہی ہیں۔

گزشتہ روز حافظ آباد میں قرآن پاک کے نسخےجلانے کا واقعہ سامنے آیا جب شہر میں دارارقم سکول کی انتظامیہ پرقرآن پاک جلانے کا مبینہ الزام لگایا گیا جس کے بعد شہر کی مرکزی شراہوں کو بند کردیا گیا جبکہ شہر بھر کی ٹریفک کو بلاک کرکے شہریوں کو اذیت سے دوچار کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق محمد نواز کو سکول نے انتظامیہ نے سکول میں پڑی ردی کو پہلے تو بیچنے کا کہا پھر یہ کہہ کر اسے منع کردیا کہ اس میں طالبات اور ان کے گھر والوں کے موبائل نمبرز اور پتہ وغیرہ ہوتا ہے وہ ردی بیچنے کی بجائے اسے جلا دے۔ جہاں یہ ردی پڑی ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی قرآن پاک بھی تھیلے میں بند تھے۔ چوکیدار محمدنواز نے جب ردی کو جلایا تو اس کے ساتھ قرآن پاک کے نسخے بھی جل گئے جبکہ پتہ چلنے کے بعد کچھ اوراق کو بچالیا گیا۔

جس چوکیدار پر ایف آئی آرکاٹی گئی ہے وہ حافظ آباد کے محلہ تاج پورہ کا رہائشی محمد نواز ہے، اس کے محلے داروں و دیگر علاقہ مکینوں کے مطابق وہ ایک مذہبی آدمی ہے اس کے تین بیٹے ہیں جس میں دو حافظ قرآن ہیں۔

دوسری جانب اس واقعے کے فوری بعد مشتعل مظاہرین نے سوچے سمجھے بغیر احتجاجی مظاہروں کو نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا اور عام شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی۔

سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو سامنے آئی جہاں فرزندان اسلام جذبہ ایمانی سے بھر پور بپھرے ہوئے دین کے ٹھیکداروں نے سڑک پر جاتی ایک ایمبولینس کو نہ صرف توڑ ڈالا، بلکہ اس کے ڈرائیور کو بھی تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔

مولوی حضرات کہاں پیچھے رہنے والے تھے وہ بھی بہتی گنگاہ میں ہاتھ دھونے پہنچے، شعلہ بیان تقریریں کی گئیں مگرکسی کو واقعہ کے پس منظر کو جاننے کی توفیق نہ ہوئی، مشتعل افراد نے سکول اور چوکیداد کو جلانے کی کوشش کی مگر بھلا ہو پولیس کا جس نے اسے بچالیا اور اپنے ساتھ تھانے لے گئے، رات گئے مشتعل مظاہرین نے تھانے پر بھی حملہ کردیا اور یہ تماشہ رات 11 بجے تک جاری رہا۔

شہر کی کسی بڑی مذہبی قیادت نے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ کی تاہم مقامی سیاسی قیادت اورانتظامیہ نے مشتعل لوگوں سے مذاکرات کرکے شہر میں امن وامان قائم کیا۔ جبکہ پولیس نے سکول کے چوکیدارکیخلاف ایف آئی آر کاٹ کر مشتعل ہجوم کو یقین دہانی کروائی کہ واقعہ میں ملوث لوگوں کو سزا دلوائی جائے گی۔

سکول انتظامیہ اور چوکیدار کے بیان کے مطابق یہ ایک غلطی تھی۔ ورنہ سوچیں کون مسلمان ایسی حرکت کرتا سکتا ہے وہ بھی کھلے۔ان شدت پسندوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بلکہ اس غریب کو پکڑ کا مارنا شروع کردیا۔ کسی نے اس سے پوچھنے کی زحمت نہ کی، حقائق جاننے کی بجائے لوگوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا اور شہر میں ہنگامے شروع کردئیے۔

اب اس واقعہ میں غریب چوکیدار پولیس کی حراست میں ہے کوئی اس وکیل نہیں بنے گا اور نہ ضمانت ہوگی۔

ہمارے ہاں لوگوں میں برداشت نام کی چیز نہیں رہی۔ کوئی بھی واقعہ ہو۔ سوچے سمجھے اور دیکھے بغیر ہر واقعے پر چڑھ دوڑنا انکا وطیرہ بن چکا ہے۔ جلا دو، گرا دو مار دو، راہ گیروں کو تنگ کیا جاتا ہے، آتے جاتے لوگوں کو گندی گالیاں دی جاتی ہیں۔ کیا ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے؟ ہمارا مذہب ایسا نہیں ہے لوگوں نے اپنی دکانداری کی خاطر دین کا چہرہ بگاڑ دیا ہے۔

ان سب کا سہرا ان کے سر جاتا ہے جنہوں نے کالعدم تحریک لیبک والوں کو اپنے بچے کہہ کر شہہ دی اور ان کی سوچ کو پروان چڑھایا۔ "پین دی سری" والی سوچ اب ہمارے معاشرے کی ہر چیز کی پین دی سری کررہے ہیں اور ریاست بے بس نظر آتی ہے۔ شدی پسندی اور عدم برداشت خوفناک حدتک ہر گزرتے دن کیساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے، ریاست ہوش کے ناخن لے ورنہ جو افراد دور بیٹھ کر یہ پتلی تماشہ کرتے ہیں وہ بھی ایک دن اس کا نشانہ بنیں گے۔ خدا کیلئے اس ملک کو رہنے کے قابل چھوڑ دیں
ترس کھائیں ہم پر۔

ڈر لگتا ہے اب اس ملک میں جہاں ہر دوسرا شخص جنونی نظربھیڑیا نظر آتا ہے، جو کسی بھی بات پر کسی بھی وقت آپ پر حملہ کرسکتاہے۔

حکومت کو چاہیئے کہ جولوگ توہین اور بےحرمتی کے غلط الزام لگاتے ہیں ان کو بھی کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ سینکڑوں ایسے واقعات ہوچکے ہیں جس میں توہین اور بے حرمتی کے الزامات ثابت نہ ہوسکے تو کتنے لوگوں کو سزا دی گئی، شاید کسی کو بھی نہیں۔ ریاست شدت پسندوں کے آگے لاچار نظر آتی ہے۔ کل کے واقعہ میں شر پسند عناصر نے معصوم عوام کو اشتعال دلا کر پورے شہر کو یرغمال بنائے رکھا ہے، انتظامیہ کو ان سے مذاکرات کرنےکی بجائے جلاؤ گھیراو اور تھانےپر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرناچاہیے تھا۔
اس طرح تو کوئی بھی اٹھے کسی پر سچا جھوٹا الزام لگا کر شہر کو آگ لگا دے اور انتظامیہ منہ دیکھتی رہے۔
یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں

یہاں خود اپنے لیے بھی دعا کسی کی نہیں

خزاں میں چاک گریباں تھا میں بہار میں تو

مگر یہ فصل ستم آشنا کسی کی نہیں

سب اپنے اپنے فسانے سناتے جاتے ہیں

نگاہ یار مگر ہم نوا کسی کی نہیں

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

فرازؔ اپنی جگر کاویوں پہ ناز نہ کر

کہ یہ متاع ہنر بھی سدا کسی کی نہیں

مصنف نے جامعہ گجرات سے صحافت کی تعلیم حاصل کی ہے اور ڈیجیٹل صحافت سے منسلک ہیں۔