PTI ایک پریشان کن صورتحال میں ہے۔ یہ مانے گی نہیں، لیکن جانتی یہ بھی ہے۔ 2022 پر ایک تفصیلی نظر ڈالی جائے تو یہ ایک ایسے پہاڑ کی طرح نظر آتا ہے جسے سر کرنا انتہائی دشوار ہے۔ 5 واضح خطرات موجود ہیں جو پارٹی کے سامنے کھڑے ہیں:
1۔ منی بجٹ۔ چت بھی تیری، پٹ بھی تیری۔ آج وفاقی کابینہ مل کر منی بجٹ، جسے منی بل بھی کہا جا سکتا ہے، پر بات چیت کر کے غالباً اسے پاس بھی کر دے گی (ترجمہ کیے جانے تک یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہو چکا ہے)۔ اس بل کا پاس ہونا لازمی ہے اگر حکومت IMF کے پروگرام میں واپس داخل ہونا چاہتی ہے۔ پچھلے کابینہ اجلاس میں اس پر بحث مؤخر کر دی گئی تھی کیونکہ بہت سے وزرا، خصوصاً اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کابینہ اراکین، نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اور ایسا کرنے کی ان کے پاس ٹھوس وجوہات تھیں۔ یہ بل پاس ہوتا ہے تو مہنگائی اور عوامی غیض و غضب کی ایک نئی لہر کا سامنا اس پہلے سے لڑکھڑاتی حکومت کو کرنا ہوگا۔ PTI کے ریوڑ میں بے چینی ہے۔ اگر وہ پارلیمان میں تعداد مکمل نہ کر سکے تو؟ منی بل کی ناکامی قائدِ ایوان کے لئے عدم اعتماد تصور کی جاتی ہے۔ حکومت تاش کے پتوں کی طرح زمین پر آ رہے گی۔ خاتمے کا خوف حکومتی اراکین کو ستا رہا ہے۔ کچھ نے تو ازراہِ مذاق وہ بھی کہہ دیا ہے جو وہ کہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے: اپوزیشن میں بیٹھ کر خدمت کرنے کا عزم۔ انہوں نے بھلے ازراہِ مذاق کہا ہو، سب جانتے ہیں کہ یہ سنجیدہ بات ہے۔
لیکن وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اتنی جلدی نہیں۔ ریڈ زون میں موجود ایک قریبی ذریعے کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی بدن بولی بہت مثبت ہے۔ وہ اپنے 'گھبرانا نہیں ہے' کے نعرے پر بھرپور عمل کر رہے ہیں، گو ان کے زیادہ تر ساتھی اب ایسا نہیں کر پا رہے۔ بل پر ووٹنگ جیسے ہی ہوگی، ٹیکنیکل ناک آؤٹ، اگر ہونا ہوا، تو اسی وقت ہو جائے گا۔ یہ کسی بھی دن ہو سکتا ہے۔ حقیقتاً۔ ہاں لیکن یہ ہونا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ اپوزیشن باتیں تو بڑی بڑی کر رہی ہے لیکن کچھ کر نہیں رہی۔ ریڈ زون میں ہونے والی حرکات و سکنات سے لگتا یہی ہے کہ اپوزیشن کو بھی لگتا ہے کہ حکومت کے پیٹ میں چھری مارنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ ستاروں کی چال ابھی موافق نہیں۔ بات چیت ختم نہیں ہوئی۔ نیا خاکہ تیار نہیں ہوا۔ حکومت کی سانسیں فی الحال باقی ہیں۔ لیکن یہ مصنوعی آکسیجن پر ہے۔ اور آخری مکے کے خوف میں نیچے جھک رہی ہے۔ ایک اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ "مارچ تک انتظار کریں"۔ اگر حکومت منی بل میں بچ گئی، تو کیا اس کے نتائج سے بھی بچ پائے گی؟
2۔ ان نونیوں کا کیا کیا جائے؟ یہ ہار کیوں نہیں مان لیتے؟ آج کل سرکاری جماعت کے حلقوں میں ایک دکھڑا یہ بار بار سنا جاتا ہے۔ یہ مسلم لیگ ن والوں کو حکومت سے نکال دیا، ان پر مقدمات بنا دیے، جیلوں میں ڈال دیا، میڈیا میں گندا کر لیا، ریاست کے شکنجے میں بری طرح سے جکڑ دیا گیا۔ اور پھر بھی، یہ ایک بار پھر واپسی کے لئے کمر کسے ہوئے ہیں، نہ electables کم ہوئے، نہ کارکن، نہ حمایتی۔ نواز شریف واپس آئیں نہ آئیں، ان کی پارٹی تو آئے گی۔ یہی ہر طرف آواز ہے۔ اور یہ آواز اس جماعت کو سیخ پا کر رہی ہے جس کی ساری سیاست ہی شریفوں کی تباہی پر مرکوز تھی۔ PTI آج صرف PMLN سے نہیں جھوجھ رہی بلکہ PMLN نامی سوچ سے لڑ رہی ہے۔ جیسے جیسے حکومتی کارکردگی نیچے گئی ہے، یہ سوچ عوام میں مقبول تر ہوئی ہے۔ سوچ کو جیل میں بند نہیں کیا جا سکتا، خواہ وہ کتنی ہی اچھی یا بری ہو۔ PTI ترجمان سراب سے لڑ رہے ہیں۔ خطرہ کہیں زیادہ بڑا ہو چکا ہے اور حکومتی ترجمانوں کے روایتی غصیلے بیانات اب غیر متعلقہ ہو چکے ہیں۔ آپ نئے بیانیے کو ایسی صورت میں کیسے روک سکتے ہیں کہ جب آپ کو خود اس میں ڈوب جانے کا خطرہ ہو۔
3۔ طاقتور دوستوں سے مدد کی امیدیں۔ کہاں ہوتے ہیں وہ جب آپ کو ان کی اور ان کی 'دوستانہ فون کالز' کی ضرورت ہوتی ہے؟ PTI خود کو تنہا محسوس کر رہی ہے۔ دوست اپنے کام سے کام رکھنے کے لئے قدم پیچھے ہٹا رہے ہیں اور اس کے نتائج ہوں گے۔ ریڈ زون ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ جس ادارے نے PTI کو ہر اچھے برے دور میں مدد فراہم کی، جیسا کہ دوست کرتے ہیں، وہ اب فیصلہ کر چکے ہیں کہ PTI کو اب اپنی کفالت خود کرنے دینی چاہیے۔ پنجاب میں عثمان بزدار حکومت بھی اب حفاظت کے لئے اپنے کمبل ڈھونڈ رہی ہے کیونکہ روایتی گرمجوشی کی جگہ اب بتدریج سردی لیتی جا رہی ہے۔ حکومتی جماعت میں بہت سے لوگ کپکپی کا شکار ہیں۔ اگر بل آ گیا اور فون کالز نہ آئیں؟ اگر تحریکِ عدم اعتماد آ گئی اور فون کالز نہ آئیں؟ ایسے دوستوں کو واپس کیسے لائیں جو آپ کے اپنے رویے کی وجہ سے آپ کو چھوڑ گئے ہوں؟ ریڈ زون سوچ میں مبتلا ہے۔
4۔ ایک بڑے اوور پر انحصار۔ کیا وزیر اعظم آخری بال پر چھکا لگا دیں گے؟ جیسے جیسے دیواریں قریب آ رہی ہیں، وزیر اعظم اپنے تمام آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ آپشنز لیکن کم ہی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں چند ماہ میں ایک تقرری کرنی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس تقرری کے نتائج ہوں گے۔ سنگین قسم کے۔ بہت سے سیاسی لوگ اس تقرری کے ممکنہ نتائج پر غور کرتے ہوئے اپنے آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ آپ ان تمام آپشنز کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں اور ایک ٹائم لائن آپ کے سامنے ابھر کر آ جائے گی۔ یہ چند ماہ سے آگے نہیں جاتی۔ زیادہ سے زیادہ، چند ماہ۔ ایک تنگ گھاٹی میں دوبدو لڑائی کے دوران سارا معاملہ ہی پہلے وار کا ہوتا ہے۔ اور وار کاری ہونا چاہیے۔ اس بڑے اوور کو واقعی بڑا ہونا ہوگا۔ ایک انچ آگے پیچھے ہوا تو چھکا باؤنڈری پر کیچ آؤٹ میں بدل سکتا ہے۔ کپتان سے بہتر یہ کون جانتا ہے؟
5۔ PTI بمقابلہ PTI – ایک بار پھر۔ خیبر پختونخوا میں شکست ہوئی تو PTI کے چیئرمین نے PTI کا آئین بھی اٹھا کر باہر پھینک دیا، PTI کے عہدیدار بھی اور PTI کا پورا انتظامی ڈھانچہ بھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے PTI ذرائع کے مطابق یہ ان کا اختیار نہیں۔ 2019 میں وضع کردہ پارٹی آئین کے تحت یہ ممکن نہیں جسے انہوں نے اٹھا پھینکا ہے۔ انڈے اور مرغی والی کشمکش میں پارٹی کے اندر پنپتی مایوسیوں کا آملیٹ بنا دیا ہے۔ پارٹی میں بہت سے لوگوں کی حیرت گم ہو گئی جب وزیر اعظم نے پارٹی عہدے ان سے لے کر وزرا کے حوالے کرنے کا سنگین فیصلہ کیا۔ پارٹی امور میں اہم کردار ادا کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ 2019 کا پارٹی آئین کئی مہینوں کی وسیع مشاورت کے بعد بنایا گیا تھا۔ چیئرمین نے اس پر دستخط کر رکھے ہیں۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ اسے ایک ٹوئیٹ سے بے اثر کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک قانونی معاملہ ہے اور الیکشن کمیشن اس کا نوٹس لے سکتا ہے۔ اور پارٹی کے اندر سے بھی کوئی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ بلکہ شاید کوئی ایسا کرنے ہی والا ہو۔ اس 'کوئی' کا ایک نام بھی ہے۔ ریڈ زون ذرائع کے مطابق یہ 'کوئی' اپنے آپشنز پرکھ رہا ہے۔ یہ ایک اور محاذ ہے جو PTI کو کھولنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن پھر PTI ہی کیا ہوئی جو PTI سے برسرِ پیکار نہ ہو؟
تو سیٹ بیلٹس کس لیجیے۔ 2022 بڑا بپھرا ہوا ہوگا۔ خاص طور پر اگر آپ حکومتی جماعت کا حصہ ہیں۔
فہد حسین نے یہ مضمون ڈان اخبار کے لئے لکھا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔