'ٹیکنوکریٹ حکومت بنانا سیاسی طور پر مشکل ہے اور آئین میں بھی کوئی گنجائش نہیں'

'ٹیکنوکریٹ حکومت بنانا سیاسی طور پر مشکل ہے اور آئین میں بھی کوئی گنجائش نہیں'
پاکستان کو اگلے تین مہینوں میں 8.3 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جن میں سے 4 ارب ڈالرکی توسیع کر دی جائے گی جبکہ باقی کی رقم اس وقت تک خزانے میں نہیں آئے گی جب تک آئی ایم ایف تعاون نہیں کرتا۔ معیشت کی ڈوبتی کشتی کو صرف آئی ایم ایف ہی بچا سکتا ہے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کا بننا بہت مشکل ہے۔ آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ آئی ایم ایف بھی ایسی حکومت سے ڈیل نہیں کرے گا۔ سیاسی طور پر بھی ٹیکنوکریٹ حکومت بنانا مشکل ہو گا کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کریں گی۔ آج پاکستان جس معاشی چوراہے پر کھڑا ہے، اس میں 30 سے 35 سال لگے ہیں۔ ہر سال بجٹ میں خسارہ چلتا آ رہا ہے، جس کی وجہ سے 60 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت بھی اچانک کیسے سب کچھ ٹھیک کر لے گی؟ یہ کہنا ہے ماہر معاشیات فرخ سلیم کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے فرخ سلیم نے کہا کہ ڈالر کی افغانستان منتقلی کی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ پاکستان کی ماہانہ 3 ارب ڈالرکی برآمدات ہیں، اس میں 205 ارب ڈالر افغانستان کیسے جا سکتا ہے؟ یہ ہماری اپنی کمزوریاں ہیں جن کو افغانستان پہ ڈال رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں ڈالر کے ریٹ میں صرف دو روپے کا فرق ہے۔ سمگل کر کے صرف دو روپے کا منافع لینا غیر منطقی دکھائی دیتا ہے۔ انٹر بینک میں ڈالر کا ریٹ 226 ہے اور بازار میں 247 ہے۔ انٹر بینک والا ریٹ جعلی ہے، اصلی وہی ہے جو مارکیٹ میں مل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے تین دنوں میں اہم ملاقتیں ہوئی ہیں؛ کور کمانڈر میٹنگ، آرمی چیف اور وزیراعظم کی میٹنگ اور نیشنل سکیورٹی کی میٹنگ۔ ان ملاقاتوں سے لگ رہا ہے کہ معاشی مسائل پر توجہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان کو اپنا نظام ٹھیک کرنا ہو گا، سیاسی اور معاشی پالیسی کو الگ الگ رکھنا ہو گا۔ پاکستان میں معیشت کی جو صورت حال ہے اس کے نتائج بڑے خطرناک ہوں گے۔

صحافی عامر رانا نے کہا کہ بات چیت کا سلسلہ رکنے کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں، اس میں کور کمانڈر پشاور کے تبادلے کا بھی کردار ہے۔ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے ان کو پھر سے زور پکڑنے کا وقت مل جاتا ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔ ان کو کسی بھی قسم کی کوئی ڈھیل نہیں دینی چاہئیے۔ پاکستان کو افغان طالبان سےبات چیت کرنی چاہئیے۔ یہ بات چیت ریاستی سطح پر ہونی چاہئیے۔ کسی مولوی یا جرگے کی مدد حاصل نہیں کرنی چاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے واضح نہیں ہے کہ آپریشن کہاں پر کرنا ہے کیونکہ ٹی ٹی پی کی مسقل پناہ گاہیں تو افغانستان میں ہیں۔ طالبان کے ساتھ سرحد کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کے حوالے سے بات کرنی چاہئیے۔ ٹی ٹی پی کے لوگ اتنے نہیں ہیں جتنے حکومت بتا رہی ہے۔ ٹی ٹی پی اچانک حملہ آور ہو گئی تھی، سی ٹی ڈی اس کے لیے تیار نہیں تھی۔

نادیہ نقی نے کہا کہ نور ولی مسعود نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ پاکستان کے اندر سے حملے کر رہے ہیں، وہ پاکستان کے ساتھ کئی عشروں تک جنگ لڑ سکتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک واضح پالیسی کے ساتھ ڈیل کرنا چاہئیے، ان کے بارے میں بار بار رائے تبدیل نہیں کرنی چاہئیے۔ پاکستان کی معیشت اور اس کے عوام نے دہشت گردی کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کامران ٹیسوری کے گورنر بننے سے ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے درمیان معاملات کافی مثبت طرف کو گئے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کو سیٹیں حاصل کرنے کے لیے تمام دھڑوں کو اکٹھا ہونا ہوگا، جب تک 'لندن والے' ووٹرز سرگرم نہیں ہوتے اس وقت تک ایم کیو ایم کو وہ کامیابی نہیں مل سکتی۔ یوں دکھائی دے رہا ہے کہ یہ سب معاملات کسی کے اشارے پہ ہو رہے ہیں۔

صحافی تنزیلہ مظہر نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے دیا گیا فیصلہ عدالتی مارشل لا جیسا فیصلہ ہے۔ پاکستان کی عدالتیں بھی پاپولسٹ نظریات کی حامی نظر آ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کی جہاں اپنی حکومت ہے وہاں الیکشن نہیں کروا رہی، لیکن جہاں مخالفین کی حکومت ہے، وہاں پر الیکش کروانے پر زور ڈالا جا رہا ہے۔ بلدیاتی الیکشن سے پہلے حلقہ بندیوں کے حوالے سے فیصلہ سازی کر لینی چاہئیے۔ عدالت کا فیصلہ عملی بنیادوں پر نہیں دیا گیا۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ مہاجر کمیونٹی کی کچھ حقیقی محرومیاں ہیں۔ اگر ریاست ان محرومیوں کا ازالہ نہیں کرے گی تو 'لندن والا فیکٹر' اپنی جگہ پر برقرار رہے گا۔ کراچی کے مہاجر ایک قوم پرست جماعت کے ساتھ منسلک ہو کر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے، ان کو وفاقی سیاست کا حصہ بننا چاہئیے۔
میزبان رضا رومی نے کہا کہ 'سٹریٹیجک ڈیپتھ' والے نظریے کو دفن کر دینا چاہئیے، افغانستان کو اپنی کالونی بنا کر تباہ کرنا ٹھیک نہیں، اس سے پاکستان بھی تباہ ہو رہا ہے۔ انتہا پسندوں کو معاشرےمیں جگہ دی جاتی ہے جس سے ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں، اس کو ٹھیک کرنے میں بھی 30 سے 40 سال لگیں گے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔