ایک زمانے میں آصف زرداری بڑے دھڑلے سے کہا کرتے تھے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اسی زمانے میں بزرگ یہ فرماتے تھے کہ بری جمہوریت کا علاج مزید جمہوریت میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ الیکشن سے پہلے ہمیں بھی بہت شوق تھا کہ اس ملک میں خوب جمہوریت پنپے۔ عوام کے ووٹ کو توقیر ملے۔ سول سپریمیسی کا نعرہ بلند ہو۔ دو جمہوری ادوار جیسے تیسے گزر گئے ہیں اب تیسرا دور آئے گا اور پھر راج کرے گی خلق خدا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن بدقسمتی سے اس نام نہاد دور جمہوری نے ذہن سے پارلیمان کی بالا دستی کا سارا فتور ہی ختم کر دیا۔ عوام کے مینڈیٹ کی حرمت والا سارا خناس ہی ختم کر دیا۔ اب اس دور میں جمہوریت ایک نظام نہیں ہے یہ ایک ڈھال ہے جس کے پردے میں مطلق العنانیت جلوہ افروز ہے۔ جس کی آڑ میں آمریت قہقہے لگا رہی ہے۔
اگر تیسرے جمہوری دور میں اقتدار کی منقلی کے لئے انتخابات متنازعہ نہ ہوتے، الیکشن سے پہلے میڈیا پر پانچ سال تک کرپشن، غداری اور کفر کے فتوے نہ لگتے، دھونس اور دھانلی سے ‘الیکٹیبلز’ کو ایک نو آموز پلیٹ فارم پر اکھٹا نہ کیا جاتا، سیاسی جماعتوں کی قیادت کی برسرعام پکڑ دھکڑ نہ شروع کی جاتی، الیکشن میں انتخاب منصفانہ ہوتا، فارم پینتالیس میسر ہوتا، دھاندلی کو ریکارڈ کرنے والے کیمرے چل رہے ہوتے، آر ٹی ایس مبینہ طور پر کام کرنا چھوڑ نہ دیتا، انتخابات کے بعد متنازعہ حلقوں کی ری کاؤنٹنگ کی اجازت دے دی جاتی، اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے نتائج میں تعطل نہ ہوتا، نامعلوم اشاروں پر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو اکھٹا کر کے الائنس نہ بنائے جاتے، ووٹنگ کی رفتار کو حد سے زیادہ سست نہ بنایا جاتا تو ہم اس حکومت اور اس اسمبلی پر ایمان لاتے اور جمہوریت کے سفر کے ایک اور مرحلے کو صدق دل سے قبول کرتے۔
اس سارے عمل میں جو کچھ ہوا یہ نہیں کہ کسی کو اس کا علم نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کیا ہوا ہے، کیسے ہوا ہے، کب ہوا ہے، کس نے کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس سب کے بارے میں کسی کو کچھ کہنے کی جرأت نہیں ہے۔ ایوان لوٹوں سے بھر دیا گیا ہے، میڈیا اس معاملے پر خاموش تماشائی بنا کھڑا ہے۔ سچ بولنے والوں کو اب نوکریوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں، نظام کی قلم سے حفاظت کرنے والے اب بچوں کی فیسوں کے لئے ادھار پکڑ رہے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے والوں کے لئے یہ لفظ طعنہ بنا دیا گیا ہے۔ نیب سے غلط فیصلوں کا پوچھیں تو کہتے ہیں کہ جمہوریت ہے اور اس میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ عدالتوں کے متنازعہ فیصلوں کی بات کریں تو جواب ملتا ہے کہ جمہوریت ہے، اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ غیر جمہوری اداروں کی پاریلمانی امور میں مداخلت پر بات کریں تو سب جمہوریت کی ڈھال کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ عثمان بزادر کی نااہلی کا ذکر کریں تو جمہوریت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں زہر سے ہی زہر کو مارا جاتا ہے۔ اسی جمہوریت کے لئے لوگ قربانیاں دیتے تھے اسی کے لئے پھانسی پر لٹکتے تھے، اسی کی خاطر کوڑے کھاتے تھے، اسی کے نام کے نعرے لگاتے تھے، اس کی خاطر ملک بدر ہوتے تھے اور ایسے تمام فتنہ پردازوں کے لئے یہی جموریت ایک کلنک کا ٹیکہ بنا دی گئی ہے۔
وہ جو آصف زرادری کہا کرتے تھے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے وہ کسی اور زمانے اور ملک کی باتیں ہوں گی۔ اب جو جمہوریت ہمارے یہاں نافذ ہے یہ اگر کسی سے انتقام لے رہی ہے تو وہ پاکستان کے عوام ہیں۔ جمہوریت پسند ہے۔ عوام کی سپریمیسی کا نعرہ بلند کرنے والے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا مطالبہ کرنے والے ہیں۔
اب جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نام ضرور جمہوریت ہے مگر نام سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اب وہی دور آمریت ہے، اب وہی سیاسی جماعتوں کے خلاف انتقام کی صورت ہے، اب پھر آزادی اظہار پابند سلاسل ہے۔ اب وہی سیاسی قیادت سے انتقام ہے جو آمریت کے ادوار کی روایت ہے۔
اس دور تاریک کا المیہ یہ ہے سسک سسک کر جہاں جمہوری اداروں نے اپنی جگہ بنانا شروع کی تھی وہ جگہ پھر مقبوضہ ہو چکی ہے۔ ہم مقبو ضہ جہموریت، مقبوضہ میڈیا اور مقبوضہ پارلیمان کے دور میں جی رہے ہیں۔ یہ دور ایسا ہے جہاں سانس لینے کے لئے بھی اجازت چاہیے ، جہاں بات کہنے کے لئے بھی اذن درکار ہے۔ جہاں سوال کرنے کے لئے جان پر کھیلنا مقدر ہو گیا ہے، جہاں لفظوں، خوابوں اور آوازوں پر پابندی ہے۔ جمہوریت پسند ایک دوجے کا منہ تک رہے ہیں۔ ہکا بکا ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔
اب میاں صاحب چاہے جیل میں عوام کے ووٹ کی عزت کا نعرہ لگائیں، یا آصف زرادری بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی قربانیوں کی مثالیں دیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب ایک نیا دور جمہوری ہے جو دراصل جمہوریت کا لبادہ ہے۔ جس کے پیچھے وہی قوتیں خندہ زن ہیں جو اس قوم ماضی میں بھِی آئین کی بے توقیری کر چکی ہیں۔ اب جمہوریت اس ملک میں نہ نظام ہے، نہ انتقام ہے۔ اب یہ بس ایک مخصوص حلقے کے لئے بہترین انتظام ہے۔