جمہوریت بہترین انتقام ہے: عدالتی فیصلے کیا مستقبل میں آمریت کا راستہ روک لیں گے؟

سپریم کورٹ کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے مختصر آرڈر کے بعد گزشتہ روز تفصیلی فیصلہ بھی جاری ہوگیا ہے۔ شارٹ آرڈر میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کی گئی تھی مگر شرط یہ تھی کہ چھ ماہ کے اندر اندر پارلیمان کو اس حوالے سے قانون سازی کرنا لازمی ہے۔ یعنی بال اب پارلیمینٹ کے کورٹ میں ہے۔

اب اگر حکومت چھ ماہ کے عرصے میں پارلیمینٹ (جس کو عمران خان چوروں، ڈاکوؤں کی آماجگاہ سمجھتے ہیں) کی مدد سے موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی نہ کر سکی تو جنرل باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے۔ اور پاکستان کو ایک نیا چیف آف آرمی سٹاف مل جائے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ تفصیلی فیصلہ میں لکھا ہوا ہے کہ  اٹارنی جنرل نے اس حوالے سے یقین دہانی کروائی ہے کہ پارلیمان اس معاملے پر چھ ماہ کے اندر قانون سازی کرے گی، مگر وفاقی حکومت اگر ایک جنرل اور نتیجتاً آرمی چیف کی ملازمت کے دورانیے اور اس کی شرائط کو قانون کے ذریعے ضابطے میں نہ لا سکی تو اس کے نتیجے میں آرمی چیف کے آئینی عہدے کو مکمل طور پر بےضابطہ اور ہمیشہ جاری رہنے کے لیے چھوڑا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ 'ناقابلِ تصور' اور 'آئینی مضحکہ خیزی' ہو گا۔

چونکہ عدالت میں اٹارنی جنرل نے خود بیان حلفی جمع کروایا ہے، لہذا اس بات کے امکانات کم ہیں کہ حکومت نظرثانی کی درخواست فائل کرتی ہے۔ اس صورت میں حکومت کے پاس ایک ہی آپشن رہتی ہے کہ وہ قانون سازی کی طرف جائے۔ جس کے لئے لازم ہے کہ گالم گلوچ اور الزام تراشی کے مووڈ سے نکل کر موافق سیاسی ماحول پیدا کیا جائے، سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن سے تعلقات بہتر بنائے جائیں۔ اپوزیشن کو قائل کیا جائے کہ کیوں اس حوالے سے نہ صرف قانون سازی ضروری ہے بلکہ موجودہ حالات میں جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کیوں ضروری ہے؟


سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس مدت کے گزرنے کے بعد صدر مملکت وزیرِ اعظم کی سفارشات کی روشنی میں کسی بھی حاضر سروس جنرل کو نیا آرمی چیف تعینات کریں گے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فوج میں یہ روایت رہی ہے کہ کوئی بھی جنرل تین سال کی مدت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتا ہے لیکن کسی ادارے کی روایت کو قانون کا متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا۔  جنرل کی مدت ملازمت اور ریٹائرمنٹ قانون میں متعین نہیں ہے اس لیے آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔ فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قانون میں جنرل کی مدت ملازمت سے متعلق کوئی شق موجود نہیں ہے چنانچہ منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملے پر قانون سازی کریں۔

فیصلے کے مطابق آرمی ریگولیشن کا سیکشن 255 جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار نہیں دیتا اور یہ شق صرف عارضی مدت ملازمت کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کا ذکر کہیں بھی نہیں ہے اور وزیر اعظم کو ایسا کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ آرمی ریگولیشنز (رولز) کی دستاویز پر ایک مہر لگی ہوئی ہے جس کے مطابق یہ دستاویز 'ممنوعہ' ہے اور اس میں موجود کوئی معلومات بالواسطہ یا بلاواسطہ ذرائع ابلاغ یا کسی دیگر غیر مجاز شخص کو نہیں دی جا سکتیں۔

سپریم کورٹ نے اس حوالے سے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ اور ذیلی قوانین عوامی دستاویزات ہیں اور انھیں ہر شہری کو فوراً دستیاب ہونا چاہیے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس ضمن میں حقِ معلومات کے قانون 2017 کے تحت جو حدود لاگو ہوتی ہیں وہ مسلح افواج، دفاعی تنصیبات اور دفاع اور قومی سلامتی سے متعلق دیگر ریکارڈ ہے، نہ کہ فوجی قوانین۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ عدالت عظمیٰ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو بے ضابطہ نہیں چھوڑے گی کیونکہ سپریم کورٹ کے سامنے مقدمہ ہی یہی تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک ترقی کرے گا۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے منتخب نمائندوں کے پاس اختیار ہے کہ وہ آرمی چیف کے معاملے پر قانون سازی کریں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس فیصلے کے ساتھ ایک اضافی نوٹ بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کےعہدے میں توسیع، دوبارہ تقرری کا کسی قانون میں ذکر نہ ہونا حیرت انگیز تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ملکی آئین کے تحت صدر کے مسلح افواج سے متعلق اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ آرمی چیف کا عہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقتور ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ آرمی چیف کا عہدہ اہم حیثیت اور لا محدود اختیارات کا حامل ہوتا ہے اس لیے غیر متعین صوابدید خطرناک ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی سے اس بارے میں تاریخی غلطیاں درست کرنے میں مدد ملے گی۔

چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں برطانیہ کے سابق چیف جسٹس سر ایڈورڈ کوک کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 'آپ جتنے بھی اوپر چلے جائیں قانون آپ کے اوپر ہے۔' ۔۔۔
یہ طاقتوروں کے لئے واضع پیغام ہے۔۔

سپریم کورٹ کا تفصیلی بڑا واضع ہے اور اسے مبصرین مختضر فیصلے سے سخت قرار دے رہے ہیں اس میں موجودی حکومت کے لئے ایک ہی آپشن ہے کہ وہ قانون سازی کی طرف جائے۔

https://www.youtube.com/watch?v=paPCf4u0w5s

اب حکومت کی سنجیدگی کا امتحان ہے اور پارلیمینٹرینز،سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاسی سمت کا تعین کرنا ہے کہ وہ پاکستان کو جمہوریت کے حوالے سے آگے بڑھانا چاہتی ہیں یا پھر گول گول دائرے میں گھوم کر ملک کو مستقل جمہوری بحران میں رکھنا چاہتی ہیں۔ آج سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے سابق جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم دیا ہے۔ خصوصی عدالت کے 3 رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت سے یہ فیصلہ دیا۔عدالت کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 کا جرم ثابت ہوتا ہے، تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے میں سنایا جائے گا۔

یہ دونوں عدالتی فیصلے بلاشبہ تاریخی نوعیت کے ہیں اور یقینی طور پر پاکستان کی سیاست اور مستقبل کی سمت متعین کرنے جارہے ہیں۔ عدالتی فیصلوں سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے عدالت اب قانون سے بالاتر ہونے کے تصور کو ختم کرکے عام فرد کو اور طاقتور عہدوں کو ایک ہی ترازوں میں تولنا چاہتی ہے۔ ساتھ ہی عدالت ماضی میں آمروں کے حق میں ہونے والے فیصلوں کی تلافی بھی چاہتی ہے۔ ماضی میں عدالتوں نے ہی آمروں کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ ان کو آئین میں ترمیم کا حق بھی دیا۔ اور ساتھ ہی آئین معطلی کے وقت پی سی او کے تحت حلف اٹھایا۔ جس سے پاکستان میں آمریت مضبوط اور قانون کی حکمرانی کمزور بلکہ غائب ہوئی۔

سنگین غداری کیس کےعدالتی فیصلے پر بلاول بھٹو زرداری نے اپنے  رد عمل میں اسے ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ سے تعبیر کیا ہے۔ شہید بے ںظیر بھٹو کی فلاسفی تھی کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اور جمہوریت کے تسلسل سے قدرت کا یہ انتقام ممکن ہوا۔ پاکستان میں جمہوریت کے ارتقا اور جمہوری پارلیمانی روایات کی آبیاری میں پیپلز پارٹی کا کردار کلیدی ہے۔ انہی کی شہادتوں اور قربانیوں سے ملک میں نئے جمہوری امکانات پیدا ہورہے ہیں۔ جس کے لئے سب کو مبارک ہو۔

اب ایک بار پھر سیاسی جماعتوں اور پارلیمیںٹرینز کا امتحان ہے کہ وہ کس حد تک سیاسی پختگی کا اظہار کرتے ہوئے، ملک و قوم کو نئی سمت دیتے ہیں۔ ان کے کئے ہوئے سیاسی فیصلوں اور قانون سازی سے ملک کی سمت کا تعین ہونا ہے۔ یہ اگر چاہیں تو ملک کو جمہوری ارتقا کی اگلی سیڑھی پر پہنچا سکتے ہیں، اور چاہیں تو پاکستان کو ساکت، جامد اور کنفیوزڈ کیفیت میں ہی چھوڑ سکتے ہیں۔ عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اب باری پارلیمینٹ کی ہے کہ جمہوری روایات کو مضبوط بنائیں اور اداروں، سربراہان کو ریگییولیٹ کرنے کا موثر میکینزم قانون سازی سے دیں۔ اس سے جمہوریت بھی آگے بڑھے گی، آمرانہ رحجانات کا بھی خاتمہ ہوگا اور قانون سے بالاتر ہونے کا تصور بھی کمزور ہوگا۔ آمریت کا راستہ روکنے کیلئے عدالتی فیصلوں کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اب پارلیمینٹ کے پاس سپیس ہے کہ اپنے وجود کو تسلیم کروائے۔