Get Alerts

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!
5 ستمبر 2021 کے دن سرینہ ہوٹل کابل میں ایک صحافی کے سوال کے جواب میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی آیس آئی کے اس وقت کے سربراہ فیض حمید نے جانے کس زعم اور خوش فہمی میں مبتلا ہو کر جواب دیا تھا؛ 'پریشان نہ ہوں، سب اچھا ہو جائے گا'۔

پاکستان کی اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی کامیابی پر کچھ زیادہ ہی پراعتماد تھی اور بڑے فخر سے اس 'کامیابی' پر شادیانے بجائے جا رہے تھے۔

تحریک انصاف کی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو امریکہ کے انخلا کے بعد پاکستان کی سکیورٹی صورت حال اور ٹی ٹی پی جیسے پاکستان مخالف دہشت گردوں سے نمٹنے کا منصوبہ بنانا چاہئیے تھا مگر افسوس کہ وزیر اعظم عمران خان طالبان کو غلامی کی زنجیریں توڑنے پر مبارک باد دیتے رہے اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید عوام کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہے۔

اس وقت کے صاحب اقتدار طالبان کی اس یقین دہانی پر تکیہ کیے بیٹھے تھے کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ٹی ٹی پی جیسے سفاک دہشت گردوں نے پھر سے ملک، بالخصوص خیبر پختونخوا میں عام شہریوں اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

آج دہشت گردی کے تازہ واقعے میں پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں ایک خودکش دھماکے میں اب تک 44 افراد کے شہید جبکہ 157 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے اس حملے کہ ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔

پاکستان آج پھر سے 2007 اور 2008 والے دوراہے پر کھڑا ہے جب ٹی ٹی پی نے پورے ملک کو دہشت گردی سے دوچار کر رکھا تھا۔ جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان اور سوات پہ ٹی ٹی پی کا قبضہ ہو چکا تھا اور اسلام آباد پر قبضے کی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔

اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی حکومت اور پاکستان فوج کی اعلیٰ قیادت نے ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپریشن راہ حق اول، راہ حق دوم اور 2009 میں جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ راست کے ذریعے پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی پیش قدمی اور ان کے حملے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ اسی طرح نواز شریف دور حکومت کے دوران 2014 میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا تھا جس میں فوج کے افسروں، جوانوں اور عام شہریوں سمیت ہزاروں لوگ شہید ہوئے۔

پاکستان کی مسلح افواج حکومت اور عوام کی مدد سے شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے خالی کروانے میں کامیاب ہوئیں۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کے تقریباً 70 ہزار افراد شہید ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اتنی قربانیوں اور خونی جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والی کامیابی پھر سے کسی کے زعم اور احمقانہ سوچ کی بھینٹ چڑھنے والی ہے۔

2014 میں ہی اس وقت کی حکومت نے ملک سے دہشت گردی اور اس کے سہولت کاروں کو ختم کرنے کے لئے 'نیشنل ایکشن پلان' وضع کیا جس میں ملک کے اندر موجود انتہاپسند عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ بدقسمتی سے ہمیشہ کی طرح اس قومی منصوبے پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہو سکا۔

نواز شریف حکومت پر بین الاقوامی دباؤ تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف مناسب کارروائی عمل میں نہیں لا رہا۔ 6 اکتبور 2016 کو پاکستان کی قومی سلامتی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ کے اندر کی کارروائی میڈیا کی زینت بنی جس کو 'ڈان لیکس' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ڈان اخبار نے ایک سٹوری چھاپی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ سویلین حکومت نے فوجی قیادت کو پاکستان کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی سے آگاہ کیا اور ریاست کی طرف سے کئی اہم اقدامات پر اتفاق رائے طلب کیا۔ اس سٹوری میں یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور فوجی قیادت کے مابین دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کرنے کے معاملے پر گرما گرمی بھی ہوئی۔

سویلین حکومت کو دہشت گردی سے منسلک خطرات اور اس ضمن میں دی جانے والی قربانیوں کی قیمت کا ادراک تھا مگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ کی طرح کچھ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو غالباً مستقبل میں ان کے ممکنہ استعمال کے لئے بچا کر رکھنا چاہتی تھی۔ اسی عاقبت نااندیشی اور احمقانہ طرز عمل کے نتائج کچھ سالوں بعد پھر سے عوام اور ریاست کے سامنے آنے والے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں امریکہ کے افغانستان سے ممکنہ انخلا کے لئے طالبان اور امریکہ کے مابین دوحہ میں مذاکرات شروع ہوئے جس میں پاکستان فریقین کے درمیان سہولت کار کا کردار ادا کر رہا تھا۔ فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا جس کے ذریعے امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کے لئے محفوظ راستہ مل گیا۔

اس معاہدے میں اس وقت کی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے شدید دباؤ تھا کہ امریکی انخلا کے بعد ٹی ٹی پی جیسے دہشت گردوں اور پاکستان کی سکیورٹی کا کیا بنے گا، مگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ طالبان نے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

طالبان کے ساتھ مذاکرات کے وقت تحریک انصاف کی حکومت نے سارا اختیار اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں دے رکھا تھا۔ تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر مذاکرات پر انتہائی مطمئن نظر آتے تھے۔ شاید ان کو لگتا تھا کہ طالبان کے استاد کے اکوڑہ خٹک والے مدرسے کو کروڑوں روپے کی گرانٹ دینے سے طالبان ان کے زیرِ سایہ آ گئے ہیں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی حکومت نے ٹی ٹی پی کے کئی دہشت گردوں کو رہا کر دیا۔ کیسی ستم ظریفی تھی کہ دہشت گرد رہا ہو رہے تھے اور علی وزیر اور محسن داوڑ جیسے دہشت گردی کی مخالفت کرنے والے اراکین قومی اسمبلی قید کئے جا رہے تھے۔

تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں پچھلے دس سال سے حکومت ہے۔ اس حکومت نے شدید نااہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس اور سی ٹی ڈی کے محکموں کو دہشت گردوں سے مقابلے کے لئے مناسب ساز و سامان تک مہیا نہیں کیا۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے مطابق پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے پولیس، سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔

اگر پاکستان میں دہشت گردی کے پیرائے کا تجزیہ کیا جائے تو ایک بات واضح نظر آتی ہے کہ ہر سیاسی پارٹی نے اپنے دور حکومت میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیے، ہمیشہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے وعدے بھی کیے اور دہشت گردی کے خلاف قربانیاں بھی دی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی محبوب لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو اور سینکڑوں کارکنوں کی قربانی دی ہے۔ مسلم لیگ ن کے پنجاب میں وزیر داخلہ شجاع خانزادہ بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اپنے اپنے ادوار میں دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشن بھی کیے۔ بلاول آج بھی ہر فورم پر طالبان کے خلاف سینہ سپر ہے۔ ن لیگ اگرچہ گومگو کی کیفیت کا شکار ہے لیکن اقتدار میں ہوتے ہوئے اس نے ہمیشہ اپنے نظریے پر ملکی مفاد کو ترجیح دی ہے۔

مگر ایک پارٹی ایسی ہے جس نے اپنے دور حکومت میں دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دیے رکھی۔ دانستہ ان کی کارروائیوں سے چشم پوشی اختیار کی۔ اس پارٹی کے چیئرمین کو دہشت گرد مذاکرات کے لئے اپنا نمائندہ نامزد کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرنے کے بجائے وہ ابھی بھی دہشت گردوں کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔

ہو سکتا ہے وہ دہشت گردوں کے 2013 کے اس احسان کا بدلہ اتار رہے ہوں جب دہشت گردوں نے خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کو الیکشن کمپین کی اجازت نہیں دی تھی اور تحریک انصاف کو کھلا میدان مہیا کیا تھا۔

پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودہ غیر انسانی اور ہولناک کارروائیوں کا ذمہ دار وہی باجوہ-عمران-فیض گٹھ جوڑ ہے جس کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی تاریخ کے بدترین سیاسی اور معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور اب دہشت گردی کے خونی واقعات سے اس گٹھ جوڑ کے لگائے ہوئے سارے زخم ریاست اور عوام کے وجود کو چھلنی کر رہے ہیں۔

کوئی ہے جو آئین شکنوں کو بتائے کہ پاکستان میں اس وقت سب اچھا نہیں ہے!

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔