کوئٹہ سے گوادر جانے والے شرکا کے قافلے پر بلوچستان کے ضلع مستونگ کے مقام پر فائرنگ کے نتیجے میں شرکا کے زخمی ہونے کی اطلاع آئی ہے۔ شرکا کا کہنا ہے کہ فورسز نے قافلے پر فائرنگ کی ہے جبکہ حکومت بلوچستان اس دعوے کو رد کرتی ہے۔ تاہم مقامی نجی ہسپتال نے 13 زخمیوں کی تصدیق کی ہے۔ صوبائی حکومت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔
گذشتہ روز گوادر میں دھرنے پہ بیٹھے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور شیلنگ کی گئی۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اشرف حسین سمیت متعدد شرکا کی گرفتاری کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ واضح رہے دو روز قبل بھی فائرنگ سے 7 مظاہرین زخمی ہوئے تھے۔
28 جولائی کو گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے 'راجی مُچہی' (قومی اجتماع) کے نام سے ایک عوامی اجتماع کا اعلان کیا گیا تھا جو اتوار کے روز سے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں جاری ہے۔ اس سلسلے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر بلوچستان کے مختلف اضلاع سے لوگ شرکت کرنے کے لیے پہنچے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق مختلف مقامات پر انتظامیہ کی جانب سے قافلوں کو روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق ہفتے کو کوئٹہ سے گوادر جانے والے قافلے پر مستونگ کے مقام پر شام کے وقت فائرنگ کی گئی جس سے 13 شرکا زخمی ہوئے جبکہ حکومت بلوچستان شرکا کے اس دعوے کو مسترد کرتی ہے۔ دوسری جانب شہید غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال کے ایک اہلکار کے مطابق 13 زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا ہے جن میں سے 5 کی حالت تشویش ناک ہے اور انہیں ٹراما سنٹر کوئٹہ میں ریفر کر دیا گیا ہے۔
فائرنگ سے زخمی ہونے والوں میں میاں خان ولد محمد زمان کانک مستونگ، سراج احمد ولد شکر خان کوئٹہ، محمد فہیم ولد علی احمد کوئٹہ، فرحان ولد محمد عمر کوئٹہ، محمد مصعب ولد احمد علی کوئٹہ، محمد آصف ولد ولی داد چاغی، سمیع اللہ ولد ارباب خان کوئٹہ، شبیر احمد ولد میر محمد کوئٹہ، محمد جاوید ولد محمد بخش تیری مستونگ، سراج شفیع ولد شفیع محمد کوئٹہ، مدثر احمد زین الدین عزیز آباد مستونگ، داؤد ولد محمد بخش بارکھان اور حیدر شاہ ولد عبدالرزاق شامل ہیں۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ترجمان حکومت بلوچستان نے کہا کہ مستونگ میں فائرنگ سے متعلق افواہیں ہیں، سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی اطلاعات غیر مصدقہ ہیں، بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کو دانستہ طور پر خرابی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن میں خلل ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ ترجمان کے مطابق گوادر میں مظاہرے کے درپردہ عزائم واضح ہیں۔ پُرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے تاہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ترجمان کے مطابق بلوچ یکجہتی کونسل کو بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی دعوت دے چکے ہیں، بلوچستان کی خواتین اراکین اسمبلی نے مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ بلوچستان حکومت پرُامن احتجاج کا حق تسلیم کرتی ہے تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کو جگہ کے انتخاب کا انتظامیہ کا حق تسلیم کرنا چاہیے، احتجاج کے لئے مقام کا تعین مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اور رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلے کو کوئٹہ سے گوادر جاتے ہوئے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کو غیر جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم اقدام قرار دیا ہے۔ مستونگ میں فائرنگ کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے شدید الفاظ میں اس کی مذمت کی اور خواتین اور بچوں پر تشدد کر کے انہیں ہراساں کرنے کو انتہائی قابل مذمت عمل قرار دیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما، سابق سینیٹر اور رکن صوبائی اسمبلی ثنا بلوچ نے کہا ہے کہ خواتین اور نوجوانوں کے خلاف طاقت کا استعمال قابل مذمت ہے، اختلافات بھلا کر آنے والی نسلوں کے حقوق کے محافظ بننے کا وقت آن پہنچا ہے۔
بلوچستان بار کونسل کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گوادر میں پرامن سیاسی احتجاج کو رکاوٹیں کھڑی کر کے رکوانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جلسہ جلوس کرنا ہر کسی کا جمہوری حق ہے، جمہوری اور پرامن احتجاج کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچ راجی مچی کے شرکا کو روکنے، شہروں میں سڑکوں کو بند کرنے سمیت شرکا کو گوادر میں داخلے سے روکنے جیسے واقعات کی مذمت کی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اس وقت پورے گوادر شہر کو سیل کر دیا گیا ہے اور لوگوں کو گرفتار اور اغوا کیا جا رہا ہے۔ تلار چیک پوسٹ کے قریب بلوچ راجی مچی کے شرکا کو روکنے کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ مختلف شہروں میں رکاوٹیں کھڑی کر کے جلسے کے شرکا کو روکا جا رہا ہے اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔