بلوچستان کی نام نہاد لیڈرشپ ماہ رنگ بلوچ کا درد نہیں سمجھتی

افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہئیت مقتدرہ کے اشاروں پر ناچنے والے سیاست دانوں کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنی جماعتوں میں دھڑا دھڑ شامل کر رہے ہیں مگر بلوچ خواتین پر تشدد کے خلاف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو بلوچستان کے عوام سے کس قدر لگاؤ ہے۔

بلوچستان کی نام نہاد لیڈرشپ ماہ رنگ بلوچ کا درد نہیں سمجھتی

ایک طرف ہماری ہئیت مقتدرہ بلوچستان کے کاسہ لیس سیاست کاروں کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں تقسیم کر رہی ہے تاکہ 8 فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے بلوچستان میں اپنی پسند کی مخلوط حکومت تشکیل دی جا سکے جو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں پر مشتمل ہو۔ دوسری طرف لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی بازیابی کیلئے بلوچستان کے عوام ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر خواتین کی قیادت میں اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھے ہیں۔ وفاقی پولیس نے بلوچ خواتین کے لیے اسلام آباد کو غزہ بنا دیا ہے۔

یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ پہلے ایک پختون شیر افضل مروت کو لاہوری پولیس نے ہائی کورٹ کے دروازے سے گرفتار کیا، اب بلوچ خواتین پر وفاقی پولیس بدترین تشدد کر رہی ہے۔ ریاست کا یہ جبر پچھلے دو سالوں سے جاری ہے۔ پہلے پی ڈی ایم کا مکس اچار حکمران اتحاد تحریک انصاف کے کارکنوں پر ریاستی جبر برپا کرتا رہا۔ اب یہ کٹھ پتلی نگران حکومت جس کا وزیر اعظم بلوچستان کا ڈومیسائل رکھتا ہے، بلوچ خواتین پر ریاستی جبر کر رہی ہے۔ ویسے بھی نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ یہ کہہ چکے ہیں کہ تشدد صرف ریاست کر سکتی ہے جو پچھلے دو سالوں سے جاری ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہئیت مقتدرہ کے اشاروں پر ناچنے والے سیاست دانوں کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنی جماعتوں میں دھڑا دھڑ شامل کر رہے ہیں مگر بلوچ خواتین پر تشدد کے خلاف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو بلوچستان کے عوام سے کس قدر لگاؤ ہے۔

اس سے زیادہ افسوس ناک رویہ بلوچ سرداروں کا ہے جو ہئیت مقتدرہ سے ہر وقت اقتدار کے لیے ڈیل کرنے کو تیار ہیں مگر جو کچھ وفاقی پولیس بلوچ خواتین کے ساتھ کر رہی ہے اس پر وہ بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بلوچ عوام کے اس مارچ نے ایک بات تو ثابت کر دی ہے کہ بلوچوں کی حقیقی لیڈرشپ اب یہ نام نہاد بلوچ سردار نہیں رہے بلکہ مڈل کلاس لوگوں سے نئی لیڈرشپ ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی ایک ایسا ہی چہرہ ہے۔ لیڈرشپ ہمیشہ بحرانوں سے جنم لیتی ہے۔

لاپتہ بلوچ نوجوانوں کا مسئلہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہماری ہئیت مقتدرہ اس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ دنیا بھر میں جب ہمارے حکمران لاپتہ کشمیری نوجوانوں کی بات کرتے ہیں تو ان کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا کیونکہ ہمارے اپنے بلوچ نوجوان لاپتہ ہیں۔ کراچی سے ایم کیو ایم کے کارکن لاپتہ ہیں۔ عمران ریاض جیسا صحافی 4 ماہ تک لاپتہ رہا۔ لاہور ہائی کورٹ میں کیس چلتا رہا۔ جب عمران ریاض پیش ہوا تو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر کیس نمٹا دیا کہ اب عمران ریاض آ گئے ہیں لہٰذا بات ختم۔ اگر اس سے آگے جاتے تو پتہ چلتا کہ 4 ماہ تک عمران ریاض کس کی حراست میں تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچ ہیں اور ترکیہ میں چھٹیاں منا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں وفاقی پولیس نے بلوچ عوام پر تشدد کی انتہا کر دی ہے۔ خدا جانے یہ ظلم کب ختم ہو گا مگر اس لانگ مارچ نے کم از کم یہ بات تو عیاں کر دی ہے کہ بلوچ عوام کی حقیقی معنوں میں نمائندگی کون کرتا ہے۔ یہ جو کٹھ پتلیاں بلوچستان میں موجود ہیں، وفاق میں ہیں، جو چیئرمین سینیٹ بن کر بیٹھے ہیں ان کا بلوچستان کے عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان کی سول سوسائٹی، باضمیر اخبار نویس، ادیبوں اور دانشوروں کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف اظہار یکجہتی کرنا چاہئیے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔