ڈاکٹر مبشر حسن کے عمران خان کو مشورے

ڈاکٹر مبشر حسن کے عمران خان کو مشورے
سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر مبشر حسن محض ایک سیاستدان نہیں تھے بلکہ ایک مفکر عمرانی علوم کے ماہر اور سماجی سائنس دان تھے۔ پچھلے 73 برسوں سے جو نظام اس ملک میں لاگو ہے ڈاکٹر صاحب اس نظام کے بہت بڑے ناقد تھے انہوں نے اس نظام کی خامیوں اور ان خرابیوں کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے چند کتب اور کتابچے لکھے ہیں۔ راقم بطور محقق ان کے ساتھ چند سال کام کر چکا ہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار چیرمین نیب جاوید اقبال اور عمران خان کے لیے نیک خواہشات رکھتے تھے۔ نون لیگ کی حکومت کے آخری سال جب سپریم کورٹ بہت فعال تھی اور قمر زمان چوہدری جیسے ناہل شحص کے بعد جاوید اقبال کو چیرمین نیب بنایا گیا، پھر نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا ڈاکٹر مبشر حسن 96 سال سے اوپر ہو چکے تھے گو کہ جسمانی طور پر کمزور تھے مگر دماغی صحت ٹھیک تھی۔

شام کو مجھ سے ملاقات ہوتی چائے کے کپ پر تازہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوتا ۔ ان دنوں راقم الحروف ان کا شوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی چلاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب عمران خان کو پسند کرتے تھے چند سال قبل جب عمران خان ڈاکٹر مبشر حسن سے ملنے انکے گھر آئے تو دونوں کے درمیان طویل گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے روایتی انداز میں عمران خان کو سمجھایا کہ موجود نظام حکومت میں کون کون سی خامیاں ہیں کہاں کہاں کمزوری ہے اور موجودہ پارلیمانی نظام حکومت کیوں نہیں کامیاب ہو رہا؟ ڈاکٹر صاحب نے طاقت کے اصل مراکز کے بارے کھل کر بات کی اور عمران خان کو بتایا کہ بظاہر بہت زیادہ طاقتور نظر آنے والی بھٹو حکومت جس کے وہ وزیر خزانہ تھے کس قدر بے بس بھی تھی مگر پھر بھی کیسے کام کرتی تھی۔

ڈاکٹر صاحب نے چند نکات لکھ کر عمران خان کو دہیے اور کہا ان پر عمل درآمد کرو تو کامیابی حاصل ہو گی ۔اس کے بعد 2018 کے الیکشن کے دن قریب تھے ایک شام انہوں نے مجھے کہا تم کو یاد ہے عمران خان مجھے ملنے آیا تھا میں نے اسے کچھ مشورے دہتے تھے جن پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ میں نے کہا جی ہاں۔۔ ڈاکٹر صاحب نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائے کے بعد چائے کا کپ اٹھایا اور گھونٹ بھرنے کے بعد بولے۔  اپنی تمام تر دلیری اور ایمان داری کے باوجود عمران خان اس نظام میں میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ ڈاکٹر صاحب عمران خان کے خیر خواہ تھے۔ کاش انکے مشورے پر عمران خان نے عمل درآمد کیا ہوتا۔ موجوہ حکومت کے دو سال پورے ہونے والے ہیں مگر عوامی توقعات شاید بہت زیادہ ہیں اس کچھ قصور عوام کے بے صبرے پن کا بھی ہے اور زیادہ عمران خان کا اپنا۔ انہوں ہوائی قلعے بہت تعمیر کر دیے تھے۔

  وزیراعظم عمران خان کی یہ سوچ ہے کہ جب سب سے اوپر ایمان دار بیٹھا ہو نچے سب ٹھیک ہوتا ہے مگر یہ سوچ کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی وہ شاید بھول گئے ہیں وہ تحریک انصاف کے سربراہ ہیں کسی باشولیک پارٹی کے نہیں۔ کہ اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی کے تربیت یافتہ کارکن آفسر شاہی کو سنبھالنے میں کامیاب ہوں گے۔ افسوس ایسا نہیں ہوا۔ وزراعظم نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں وبا کے دنوں میں مکمل لاک ڈون نہ کرنے فیصلہ پہلے سے تباہ حال مشعت کو زندہ رکھنا میں مددگار ثابت ہوا۔ احساس پروگرام کے تحت اربوں روپے غریب خاندانوں میں تقسیم کیے گئے۔ عالمی منڈی میں پڑول سیتا ہوا۔  117 سے 75 روپے لیٹر تک آیا، وبا کے دنوں میں بھی دیا میر بھاشا ڈیم پر تعمیراتی کام چل رہا ہے۔

شوگر کمیشن رپورٹ کو منظر عام پر لانا زمہ داروں کے خلاف ایف آئی اے اور نیب کو متحرک کرنا ۔ فلور ملز اور شوگر ملز کے لوگ اس قدر با اثر ہیں نہ صرف انکے بندے ہر حکومت میں موجود ہوتے بلکہ عدالتوں سے بھی ریلیف لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اب پڑول مافیا نے بھی اپنا کام کر دیا ہے پہلے خود ساختہ بحران پیدا کیا اب حکومت میں شامل اپنے کارندوں کے ذریعے 25 روپے اضافہ کروانے میں کامیاب ہوئے۔ اب پڑول ہر جگہ دستیاب ہے ۔جس طرح سارے مافیاز ہر حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں ٹھیک اس طرح موجودہ حکومت کوبھی کر رہے ہیں اب تک کامیاب بھی ہیں جب پڑول سیتا ہوا کسی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی نہیں ہوی مگر مہنگا ہونے پر فوراً اضافے ہو جاتے ہیں۔

ہمیں یہ مان لینا چاہیے اگر حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا تو عوامی سطح پر بھی کوئی مثبت عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ پچھلے 40 سالوں کی لوٹ مار نے کرپشن کو ایک قابل قبول عمل بنا دیا ہے ہر فرد کا  جہاں داؤ لگ  جائے وہ کام ڈال دیتا ہے۔ اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی اس کمزور حکومت جو اس سرمایہ دارانہ نظام میں کچھ کرنے سے قاصرنہے وہ کہاں تک جاتی ہے؟ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وہی بدشکل چہرے ہیں جو ہر حکومت کا حصہ ہوتے آج عمران خان کو اس بوڑھے مفکر ڈاکٹر مبشر حسن کی باتیں ضرور یاد آرہی ہوں گی۔ عمران خان ایک فائٹر ہیں ساری زندگی انہوں نے فاہٹ کی ہے کرکٹ، کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے ادارے بنائے کیا وہ اپنے باقی عرصہ اقتدار میں ان مافیاز سے لڑ پائیں گے؟ سوال ہنوز جواب طلب ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔