ان سے ملاقاتوں کا احوال لکھنے بیٹھیں تو یادوں کے کئی بند دریچے کھل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن بڑے انسان تھے۔ بھٹو صاحب کے وزیر خزانہ رہے۔ بعد میں ان سے اصولی مؤقف پر وزارت چھوڑی۔ جب بھی میں ان سے پوچھتا کہ آپ نے وزارت کیوں چھوڑی؟ کیا بھٹو صاحب آپ کی وزارت میں بطور وزیراعظم مداخلت کرتے تھے؟ وہ نفی میں سر ہلا دیتے۔ ڈاکٹر صاحب کا مؤقف تھا، پاکستان میں طاقت کے اصل مراکز کہیں اور ہیں۔ یہ وزیراعظم، وزرا تو کٹھ پتلیاں ہیں۔ میں نے بطور وزیر خزانہ ایک افسر کو تبدیل کیا کیونکہ وہ میرے معیار کے مطابق کام نہیں کر رہا تھا مگر چند دن بعد اسے عدالت نے بحال کر دیا۔ میں نے سوچا ایسی بے اختیار وزارت کا کیا فائدہ جس میں آپ ایک افسر بھی اپنی مرضی کے مطابق تبدیل نہیں کر سکتے۔
’انگریز نے سرکاری افسر کی تربیت ایسے کی تھی کہ وہ عوام کو اپنی رعایا سمجھے‘
صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لینے کے اپنے فیصلے کی ہمیشہ ڈٹ کر حمایت کرتے کہتے تھے کہ مجھے دوبارہ موقع ملا تو ایسے ہی کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب بیوروکریسی کے بڑے سخت مخالف تھے۔ وہ کہتے تھے ہم نے طاقتور بیوروکریسی کو لگام ڈالنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ سارے سرکاری افسر جس نظام اور تعلیم نصاب کی پیداوار ہیں وہ عوام دشمن ہے۔ انگریز نے یہ نظام برصغیر میں حکومت کرنے کے لئے بنایا تھا۔ سرکاری افسروں کی تربیت ایسے کی جاتی تھی کہ وہ عوام کو اپنی رعایا سمجھے، خود کو حاکم سمجھے۔ عوام کا خادم بننے کی ان کو کوئی ضرورت نہیں۔ 1947 کے بعد پاکستان کے حکمران طبقات نے بھی اسی نظام کو اپنایا۔ انگریز افسروں کے جانے کے بعد مقامی افسر جو رنگ کے کالے تھے مگر سوچ گوروں کی اپنا لی اور عوام کے لئے حاکم بن گئے۔ بیوروکریسی کی ہمیشہ سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ عوام، عوامی حکومتوں کے عوام دوست منصوبوں کو نکام کیا جائے۔ صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے والے ہمارے فیصلے کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔
’ہم تو قرضہ واپس نہیں کرسکتے، آپ جو مرضی کر لیں‘
ڈاکٹر مبشر حسن پاکستان کی تاریخ کے واحد وزیر خزانہ تھے جو عالمی مالیاتی اداروں کی بات نہیں مانتے تھے۔ ان کے عوام دشمن اقدامات کی مخالفت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تین سال ان کی وزارت خزانہ کے دور میں کسی عالمی مالیاتی ادارے کا عمل دخل پاکستانی معیشت میں نہیں تھا۔ وہ بتاتے ہیں جب میں وزیر خزانہ بنا تو ملک مقروض تھا۔ میں نے ایک عالمی ادارے کے افسر کو کہا ہم تو قرضہ واپس ہی نہیں کر سکتے، آپ جو مرضی کر لیں۔ جس پر وہ افسر ہکا بکا مجھے دیکھتا رہا۔
بھٹو صاحب نے کرپشن سے اپنا دامن کبھی داغدار نہیں ہونے دیا
بھٹو صاحب کے ساتھ اپنی یادوں کا تذکرہ کرتے ان کی آنکھوں میں چمک ابھرتی تھی۔ کہتے ہیں، بطور وزیراعظم بھٹو صاحب کا خط آیا کہ لاڑکانہ میں بھٹو صاحب کا گھر چونکہ وزیراعظم ہاؤس میں تبدیل کر دیا گیا ہے، لہٰذا وہاں سکیورٹی گارڈ کے لئے رہائشی کمرے بنائے جائیں۔ میں نے اس خط پر اعتراض کر دیا اور لکھا کہ لاڑکانہ کا گھر وزیراعظم کا ذاتی ہے، اگر سکیورٹی سٹاف کے لئے رہائشی کوارٹرز تعمیر کرنے ہیں تو وزیراعظم اپنی جیب سے کریں۔ جب یہ خط واپس وزیراعظم ہاؤس گیا تو اس پر وزیراعظم بھٹو نے لکھا، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ پھر بھٹو صاحب نے کوارٹرز اپنی جیب سے بنوائے۔
ایک بار مجھے کسی نے بتایا کہ لاہور کے شادمان علاقے میں جب ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جا رہی تھی تو خاتونِ اول بیگم نصرت بھٹو کے نام سے دو پلاٹ الاٹ کیے گئے ہیں۔ میں نے یہ بات وزیراعظم بھٹو کو بتائی کہ آپ کی ساکھ پر بہت بڑا دھبہ لگ سکتا ہے جس پر بھٹو صاحب نے فوراً ایکشن لیا اور نصرت بھٹو کے نام سے الاٹ پلاٹ کینسل کرائے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو اپنی ساکھ کی بہت پروا تھی۔ ان کے دماغ کے کسی کونے میں یہ بات نہیں تھی کہ اب وزیراعظم بن گیا ہوں، اپنے اثاثوں میں اضافہ کر لوں۔
عوامی لیڈر بننے کے شوق نے بھٹو صاحب سے دوسری ترمیم کروائی
بھٹو صاحب کو بس ایک خبط تھا کہ میں صرف پاکستان کا وزیراعظم ہی نہ بنوں بلکہ عالم اسلام کا لیڈر بن جاؤں۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے کے حوالے سے میں نے ان سے پوچھا کیا بھٹو صاحب نے یہ فیصلہ کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ کے تحت کیا تھا تو انہوں نے وہی جواب دہرایا جو سطور بالا میں لکھا گیا ہے۔ یعنی ان کو عالم اسلام کا لیڈر بننے کا شوق تھا۔
میں نے کہا اس فیصلے کو لاگو کرنے سے پہلے کابینہ میں کوئی صلاح مشورے ہوئے تھے؟ انہوں نے جواب دیا، ہاں، میں نے مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ آپ ایک غلط روایت ڈال رہے ہیں۔ کل کو آپ کو کہا جائے گا فقہ جعفریہ کے حوالے سے بھی ایسا کریں مگر میری رائے کو سنی ان سنی کیا گیا۔
ایک بار بھٹو صاحب نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر صاحب بینکوں کے افسروں کو سیدھا کرنے کے حوالے سے سخت بیان جاری کریں۔ میں نے مذاق سے کہا سخت بیان مصطفیٰ کھر سے دلوائیں۔
ڈاکٹر مبشر حسن نے پیپلز پارٹی کیوں چھوڑی؟
1976 میں بطور سیکرٹری جنرل پیپلز پارٹی عہدہ چھوڑنے کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں جب میں نے وزارت چھوڑی تو بھٹو صاحب نے کہا پارٹی کے جنرل سیکرٹری بن جاؤں۔ 1977 میں الیکشن کروانے تھے۔ میں نے 1976 سے ہی امیدواروں کے انٹرویو شروع کر دیے۔ وہ سارے جاگیردار اور سرمایہ دار جن کو پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے 1970 کے الیکشن میں ہرایا تھا وہ ٹکٹ کی درخواستیں لے کر میرے پاس آتے تو میں ان کو انکار کر دیتا۔ وہ سیدھے بھٹو صاحب کے پاس جاتے۔ جب ان کو وہاں سے ٹکٹ مل جاتا تو مجھے بڑی مایوسی ہوتی۔
پھر میں نے دیکھا کہ بھٹو صاحب نے الیکشن کے حوالے سے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کی بجائے سرکاری افسروں کی رپورٹوں پر زیادہ یقین کرنا شروع کر دیا تھا۔ جس کے بعد میں نے بطور سیکرٹری جنرل استعفا دے دیا۔
جب جنرل ضیا نے بھٹو صاحب کے جوتے اپنے رومال سے صاف کیے
میں نے ڈاکٹر صاحب سے جنرل ضیا الحق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے دو واقعات سنائے۔ ایک تو یہ کہ ایک جگہ بھٹو صاحب جنرل ضیا الحق اور میں کہیں بیٹھے تھے۔ مجھے کسی کام سے تھوڑی دیر کے لئے وہاں سے جانا پڑ گیا۔ جب میں واپس آیا تو ایک سرکاری اہلکار نے مجھے بتایا کہ بھٹو صاحب کافی پی رہے تھے کہ کافی ان کے جوتوں پر گر گئی تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیا الحق نے اپنا رومال نکال کر بھٹو صاحب کے جوتوں سے چائے صاف کی۔
ڈاکٹر صاحب اپنی مخصوص زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ بات جاری رکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ میں نے اس اہلکار سے پوچھا جب جنرل ضیا الحق بھٹو کے جوتوں پر گری کافی اپنے رومال سے صاف کر رہا تھا تو بھٹو صاحب نے کیا کہا؟ تو اس اہلکار نے بتایا کہ بھٹو صاحب نے اپنے جوتے جنرل ضیا الحق کے اور آگے کر دیے۔
’مجھے پتہ تھا آپ سے ملاقات کرنی ہے میں گھر سے ہی باوضو آیا تھا‘
دوسرا واقعہ بھٹو صاحب کی گرفتاری اور متوقع پھانسی رکوانے کے حوالے سے تھا۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ میں جنرل ضیا الحق سے ملنے آرمی ہاؤس گیا، اس کو قائل کرنے لگا کہ بھٹو صاحب کو رہا کر دو، میں ان کو بیرون ملک لے جاؤں گا۔ اسی دوران مغرب کی اذان کی آواز سنائی دی۔ یکدم جنرل ضیا الحق نے مجھے کہا، چلیں ڈاکٹر صاحب، آئیں مغرب کی نماز اکٹھے باجماعت پڑھیں۔ میں نے فوراً کہا، چلیں۔ جس پر جنرل ضیا الحق نے کہا وضو تو کر لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا مجھے پتہ تھا آپ سے ملاقات کرنی ہے میں گھر سے ہی باوضو آیا تھا۔
مفتی محمود کو ’کوک‘ کا مزا نہیں آیا
پی این اے سے مذاکرات کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ مولانا مفتی محمود مذاکرات کے لئے آئے تھے۔ بھٹو صاحب نے تاکید کی تھی کہ مفتی محمود کی کوک میں تھوڑی سی وہسکی ڈال دیا کرو۔ ایک دن بھٹو صاحب نے شرارت سے منع کر دیا۔ آج کوک میں وہسکی نہ ڈالنا۔ ملاقات کے بعد جب مولانا مفتی محمود جانے لگا تو بھٹو صاحب کو کہتا ہے کہ آج کوک کا مزہ نہیں آیا۔
’بینظیر بھٹو کو پیسہ کمانے کی ہوس تھی‘
بے نظیر بھٹو اور بھٹو صاحب کی ذات اور سیاست کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر مبشر ایک ہی بات کہتے کہ وہ اپنے باپ سے بہت مختلف تھی۔ اس کے اندر پیسہ کمانے کی ہوس تھی۔ جن اصولوں پر پیپلز پارٹی بنائی گئی تھی وہ سب پالیسیاں بے نظیر نے ختم کر دیں۔ وہ سوشلزم کی مخالف تھی اور سرمایہ داری نظام کی حمایتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب بے نظیر کے بارے لفظ بدذات استعمال کرتے تھے۔ کہتے تھے پیسہ کمانا، کرپشن کرنا، بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کا شیوہ نہیں تھا۔ جنرل ضیا الحق نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو سارے افسروں کو اس کام پر لگایا کہ بھٹو صاحب کی کرپشن ڈھونڈو مگر سارے سرکاری افسر بھٹو پر ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہ کر سکے اور بے نظیر کی دونوں حکومتوں کے خاتمے کی وجہ ہی کرپشن تھی۔ بے نظیر نے پیپلز پارٹی کی اساس ہی بدل دی تھی۔
اور پھر وہ پانی پت جانے کی خواہش دل میں لیے پرلوک سدھار گئے
سیاست کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کو شعر و ادب سے بہت دلچسپی تھی۔ ان کو میر تقی میر، غالب اور حالی کے سینکڑوں اشعار زبانی یاد تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے میر تقی میر کے منتخب اشعار کی ایک کتاب بھی مرتب کی اور غالب کے اشعار کی تشریح کے حوالے سے ایک کتاب لکھی۔ ان کی کتابیں شاہراہ انقلاب جلد اول اور دوم، رزم زندگی، پاکستان کے بحران اور ان کا حل، سیاست اور صحافت کے طالب عالموں کو ضرور پڑھنی چاہئیں۔ آخری دونوں میں وہ پانی پت جانے کی خواہش دل میں لیے چلے گئے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔