وزیر اعظم جیسے بھی ہیں، عمران خان اپوزیشن لیڈر کبھی اتنے تابعدار نہ ہوتے

وزیر اعظم جیسے بھی ہیں، عمران خان اپوزیشن لیڈر کبھی اتنے تابعدار نہ ہوتے
چند روز قبل شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن کے دوران تقریر کی تو اس موقع پر قومی اسمبلی میں خوب ہلڑ بازی ہوئی۔ کہا گیا حکومت نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ قائد حزب اختلاف کی تقریر مکمل نہیں ہونے دی جائے گی۔ دونوں جانب سے گالم گلوچ، ہاتھا پائی، بجٹ کی کاپیاں ایک دوسرے کو مارنے تک نوبت پہنچی۔ ایک کاپی شہباز شریف کے اپنے ڈیسک پر آ کر بھی گری۔ 7 اراکین اسمبلی کو معطل کیا گیا جن میں سے اپوزیشن کے صرف 4 تھے۔ اس پر اعلان کیا گیا کہ سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔ اس سے پہلے ہی اپوزیشن ڈپٹی سپیکر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد کا اعلان کر چکی تھی۔ لیکن پھر یکایک حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ اپوزیشن نے چار اراکین کی بحالی کے بدلے سپیکر، ڈپٹی سپیکر دونوں کے خلاف تحاریکِ عدم اعتماد لانے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ اگلے دن اجلاس میں سب شانتی رہی۔ شہباز شریف کی تقریر مکمل ہو گئی۔

اس موقع پر ہی شہباز شریف صاحب نے اعلان کیا تھا کہ انہیں کسی کے گھٹنے پکڑنے پڑے تو وہ بھی پکڑنے کو تیار ہیں لیکن اس 'عوام دشمن' بجٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں گے۔ 29 جون کو بجٹ بالآخر پیش کیا گیا تو اس موقع پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں سے قریب تین درجن اراکین غائب تھے۔ اپوزیشن لیڈر صاحب کے خالہ زاد بھائی اور ہم زلف طارق شفیع کا اس اجلاس سے ایک دن قبل انتقال ہو گیا، لہٰذا جس شخص نے اپوزیشن کو لیڈ کرنا تھا، وہ اجلاس میں تشریف ہی نہ لایا۔ اچھا چلیے ان کے پاس تو یہ بہانہ آ گیا۔ باقیوں کا کیا مسئلہ تھا؟ سینیئر صحافی عبدالقیوم صدیقی کے مطابق مسلم لیگ ن کے 70 اراکین اسمبلی اجلاس سے غائب تھے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ٹوئیٹ تھی۔ دراصل 138 میں سے اکثریت لیگی ممبران کی تھی۔ کل 84 لیگی اراکین میں سے ن لیگ کے مطابق 72 اجلاس میں موجود تھے۔ 8 چھٹی پر جب کہ 4 بغیر بتائے موقع سے غائب ہو گئے۔

یہ آٹھ اراکین کیوں چھٹی پر تھے؟ چار کیوں کہیں چلے گئے؟ کسی کو معلوم نہیں۔ لیکن بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے یہ بیان بالکل درست ہے کہ ان کے اراکین اسمبلی 56 میں سے 54 موجود تھے جب کہ دو کو کورونا وائرس کی وجہ سے اجلاس سے غیر حاضر رہنا پڑا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ انہوں نے شہباز شریف سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا۔ انہوں نے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ضرورت پر ایک بار پھر زور دیا کہ ان کی جماعت کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم پر بحث نہیں کروائی گئی۔ لیکن جب اپوزیشن لیڈر موجود ہی نہیں، اور محض اپنی تقریر کی خاطر سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو پھر سپیکر آپ کی کیوں سنے؟ بہرحال وہ حکومتی جماعت کی ٹکٹ پر منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے ہیں اور مستقبل میں بھی وہیں سے ٹکٹ کے امیدوار ہوں گے۔ اور جتنی تابعداری سے انہوں نے کام کیا ہے، اگلی مرتبہ وزارتِ اعلیٰ کے بھی امیدوار ہونے کی خواہش رکھ سکتے ہیں۔

اس سے پہلے مسلم لیگ ن پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانے سے انکار کر چکی ہے۔ اس بنیاد پر پی ڈی ایم اتحاد بھی ٹوٹا۔ وجوہات کچھ جائز تھیں، کچھ بہانے تھے لیکن حاصل وصول اس کا محض اتنا تھا کہ اپوزیشن اتحاد تتر بتر ہو گیا۔ اس کے بعد سپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا فیصلہ واپس ہوا، ڈپٹی سپیکر کا فیصلہ واپس ہوا۔ بجٹ تقریر کے موقع پر آٌپ غائب ہو گئے۔ یہ چار مواقع جب حکومت کو اپوزیشن مشکل ترین صورتحال سے دوچار کر سکتی تھی اور چاروں میں ن لیگ کا کردار کلیدی تھا۔

اس سے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت حکومت کی مدت پوری کروانا چاہتی ہے۔ یہ کہنا کہ یہ محض شہباز شریف کا فیصلہ ہے، ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ یہ فیصلہ پوری جماعت کا ہے کہ حکومت کو مدت پوری کروانی ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ن لیگ آخر چاہتی کیا ہے؟ تحریک انصاف کی مدت پوری کروانے میں اس کا کیا مفاد ہے؟ کلیدی مواقع پر اجلاس سے غائب ہو جانا، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے موقع پر مکمل تائید کے ساتھ سامنے آنا، فیٹف کے بل وہ خود پاس کروا لیتے ہیں، باقی بلوں پر اراکین موقع سے فرار ہو جاتے ہیں۔

اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ لانے والے صرف حکومت نہیں لائے، اپوزیشن بھی بڑی سوچ سمجھ کر لائے ہیں۔ عمران خان وزیر اعظم جیسے بھی ہیں، اپوزیشن لیڈر اتنے تابعدار کبھی نہ ہوتے جتنے شہباز شریف ہیں۔

لیکن یہ بات شہباز شریف کو یاد رکھنا ہوگا کہ اس لولی لنگڑی اپوزیشن سے وہ عمران خان کو کمزور نہیں مضبوط کر رہے ہیں۔ تین سال تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، تین عدد بجٹ بھی پیش کیے جا چکے ہیں۔ جو باقی کے دو سال ہیں، ان میں یہی حال رہا تو کیا عوام یہ بھول جائیں گے کہ ان کے حقوق پر ڈالے گئے ہر ڈاکے، ان کی روزی پر ماری گئی ہر لات، ان کے بچوں کا مستقبل تاریک کرنے والے ہر اقدام میں اپوزیشن یا تو ساتھ تھی، یا غائب؟ ہرگز نہیں بھولیں گے۔ شہباز شریف اپنی حکومت نواز پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں۔ انہیں جو کوئی بھی ایسی مرگلی اپوزیشن کرنے کو کہہ رہا ہے، اسے پہچانیں۔ وہ کسی صورت بھی آپ کا خیر خواہ نہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.