Get Alerts

میرے قاتلوں کے نام لکھ لو

میرے قاتلوں کے نام لکھ لو
زندگی اس وقت جس شکل میں گذر رہی ہے، ایسی کبھی سوچی بھی نہ تھی اور اللہ نہ کرے کہ ہمیں دوبارہ ایسی آزمائش سے گزرنا پڑے۔ مجھے جو ڈپریشن اس وقت ہونے لگا ہے، وہ زندگی کے اب تک پیش آنے والے مشکل ترین حالات میں بھی نہیں ہوا۔ میرے پاس دل بہلانے کو بہت سی مصروفیات اور باتیں کرنے کو بہت سے لوگ میسر پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ زندگی میں ایسے لوگ بھی تھے اور ہیں جن کے ساتھ میں بہت اچھا اور پرسکون وقت گزارا کرتا ہوں۔ نہ پیسے کی تنگی ہے اور نہ کسی اور چیز کی۔ لیکن یہ تمام چیزیں پاس ہونے کے باوجود ایک عجیب سی کیفیت ہے۔

یوں مانو جیسے میں اور یہ تمام چیزیں ایک شیشے کی دیوار کے ذریعے الگ کر دی گئی ہیں۔ میں انہیں دیکھ سکتا ہوں، یہ بالکل میرے پاس ہیں، لیکن ہم میں دوری آ گئی ہے۔ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ کسی کو چھونا نہیں ہے۔ کسی کے پاس نہیں جانا اور نہ کسی کو اپنے پاس آنے دینا ہے۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کسی کیفے میں نہیں بیٹھ پا رہا۔ میں شام کو سڑکوں پر دوستوں کے ہمراہ وقت نہیں گزار پا رہا۔ مارگلہ کی پہاڑیاں دعوت نظارہ تو اب بھی دیتی ہیں لیکن اس دعوت کو ہر روز رد کرنا پڑ تا ہے۔ گھر کے بچوں کو اب پیار کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ان کی معصوم شرارتوں پر ان کے گال کھینچنے کا دل کرتا ہے مگر ہاتھ آگے بڑھانے میں خطرہ ہے۔ بڑوں سے ہاتھ ملانا نقصان دہ ہے۔ دوستوں کو گلے لگانا جان لیوا ہو سکتا ہے۔ چار لوگوں کا ساتھ بیٹھنا زندگی کو مختصر کر سکتا ہے۔

مطلب ہر چیز کے بیچ شیشے کی دیوار ہے۔ میرے اس ڈپریشن کا قصوروار کون ہے؟ اگر اس وبا نے میری جان لی تو کس کوقصور وار ٹھہراؤں گا؟ میرا قاتل کس کو قرار دو گے؟

میں اگر مر جاؤں تو میں بتاتا ہوں اس کا قصوروار کس کو ٹھہرانا ہے۔

میرے قاتل وہ ہیں جنہوں نے دنیا کو اسلحہ، بارود، ٹینک اور جنگی جہازوں کے خبط میں مبتلا کیا۔

میرے قاتل وہ ہیں جنہوں نے جان لینے والی چیزوں کی نمائشیں لگائیں لیکن جان بچانے والی چیزوں کو بے وقعت جانا۔

میرے قاتل وہ ہیں جنہوں نے گلوبل وارمنگ کر کے اس دنیا کا سانس گھونٹ دیا۔

میرے قاتل وہ جاہل دین فروش ہیں جنہوں نے سائنس کو مذہب دشمن قرار دیا۔

میرے قاتل وہ ہیں جنہوں نے دنیاوی علم کو فضول کہا۔

میرے قاتل وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے وردیوں کی تو عزت کی لیکن لیبارٹریوں اور تجربہ گاہوں کو کبھی توقیر کی نگاہ سے نہ دیکھا۔

میرے قتل میں ہر اس شخص کو قاتل کہنا جس نے اس زمین پر کسی شکل میں گند پھیلایا۔

مان لو اگر وائرس ایک سازش ہے۔ کفار نے بہت پہلے سے اس کو تیار کر کے رکھا تھا۔ تو ہم ایمان داروں میں ایسی کیا کمی ہے کہ ہم ہمیشہ سازشوں کا شکار ہوئے چلے جاتے ہیں۔ کیا کفار کے پاس دو آنکھوں، دو ہاتھوں اور ایک دماغ سے زیادہ اعضا ہیں؟ ایسا کیا مسئلہ ہے کہ ہم ایک عرصے سے بنانے والوں کی فہرست کے بجائے صارفین کی فہرست میں ہیں؟

ہمیں مولوی ملے تو بکاؤ، اساتذہ ملے تو نکمے، جامعات ملیں تو ناکارہ، مدارس ملے تو جہل سے بھرپور۔ جو جو یہ پڑھے، اور اس وبا سے محفوظ رہ جائے، خدا کے لیے باقی کی زندگی اپنی ترجیحات بدل کر جیے گا۔ یہ سازش، سازش اور سازش والا چورن ہمیں بہت کھلایا گیا ہے۔ اب بدہضمی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ یا تو اپنا طرز زندگی بدل لو یا پھر ہر تھوڑے عرصے بعد اسی طرح یہودی سازش کا رونا روتے رہنا۔

کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔