پشتون تحفظ موومنٹ اور حکمران جماعت کا بیانیہ

پاکستان کی سیاست اور صحافت میں ایک زمانہ تھا کہ بات منطق اور دلیل کے ساتھ کی جاتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں طرف جدت آئی اور سیاست کے بازار میں کچھ ایسے لوگ بھی در آئے جن کا سیاست سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ آئے اور اپنے دھن دولت کے زور پر چھا گئے۔ صحافت میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور خوب ہوا ہے۔

سٹڈی سرکل میں یہ بحث ہوتی رہی کہ سیاست تبدیل ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ نواز نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہ درست بھی ہے کیوں کہ آج کے لیگی بھی یوتھیائی سیاست سے شرما جاتے ہیں۔ نوازشریف پارٹی کے معترضین یہ کہتے ہیں یہ فوج کی پیداوار ہے۔ امید تھی کہ 35 سال بعد سیاست میں نظریات، سیاسی فلاسفی اور پختگی آئے گی۔ آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی سیاست کا عہد تمام ہو گا مگر کس کو یہ معلوم تھا کہ ایک سیاسی فصل اور اگائی جائے گی جو ضیائی آمریت سے زیادہ پھلے پھولے گی۔ ایک اور دریا کا سامنا ہوگا۔ منطق، دلیل، سیاسی فلاسفی کے بجائے گالم گلوچ، گولی اور لاٹھی کی سیاست زور پکڑے گی۔ سیاست پر پابندی، صحافت پر پابندی، اظہار رائے پر پابندی اور لکھنے پر بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بقول شاعر:

دل فراموش ہو کر چلے آئے تیری محفل سے


تیری محفل میں تو ہر بات پر پابندی ہے


سانحہ شمالی وزیرستان  بھی اپنی تاریخ کا منفرد سانحہ ہے۔ ارکان قومی اسمبلی کے ساتھی پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر حملہ کرتے ہیں، گولی چلاتے ہیں اور خود ہی گھائل بھی ہو جاتے ہیں۔ میڈیا پر خبریں آتی ہیں کہ فوج پر حملہ کیا گیا ہے۔ جنگی ترانے بجتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ’’ہمیں افواج پاکستان سے پیار ہے‘‘ کی تختیاں اٹھائے محبان وطن نمودار ہوتے ہیں۔ پاک فوج کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بہادر فوج کی بروقت جوابی کارروائی سے ملک بچا لیا جاتا ہے۔


دوسری جانب اگر کوئی سادہ لوح پاکستانی شہری جو ملک دشمن عناصر اور غدار وطن کی جدید تعریف سے ناواقف ہے، خبر کی حقیقت اور سانحہ شمالی وزیرستان کی غیر محب وطن تصویر کا ذکر کرے  تو پہلے اسے غدار اور ملک دشمنوں کی صف میں شامل کرنے کا فتویٰ جاری کیا جاتا ہے اور یہ لاجک پیش کی جاتی ہے کہ آپ کو اپنی فوج پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ وہ جو کہہ رہی ہے، وہ سچ ہے۔ جب کہا جائے کہ بلوچ اور پشتون بھی پاکستان کے شہری ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے لوگ پاکستانی ہیں۔ جواب آتا ہے کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ افغانی ہیں۔ ملک کے غدار ہیں۔ قوم یوتھ یہ جواب سوچے سمجھے بغیر دیتی ہے لیکن وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پشتون تحفظ موومنٹ کی مذمت بڑی سوچ سمجھ کر کی گئی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومت نے قومی اور ملکی مفاد کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی ہے۔



حکومت اگر مذمت تک محدود رہتی ہے تو بہتر ہے لیکن اگر خدا نخواستہ کوئی ایکشن کرتی ہے تو حالات مزید خراب ہوں گے اور آگ کے شعلے بلوچستان اور سندھ کی سرحدوں تک جائیں گے۔ابھی وقت ہے کہ حکومت مصالحت کا راستہ اپنائے اور پشتون تحفظ موومنٹ سے بات چیت کرے  اور فوری پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے کر سانحہ شمالی وزیرستان کی تحقیقات کی جائیں تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کا معاملہ بہت ہی سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ اس طرح کے حساس معاملات میں یوتھیا لاجک معاملے کو بگاڑ سکتی ہے۔ محسن داوڑ اور علی وزیر عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ دونوں ارکان پارلیمان کے خلاف کارروائی پورے قبائلی علاقے کے لیے تکلیف کا باعث ہو گی اور خلیج میں مزید اضافہ ہو گا جس کے نتائج حکومت اور ریاست کے لیے کسی طور پر سود مند ثابت نہیں ہوں گے۔ پی ٹی ایم کے اثر و رسوخ  والے علاقوں میں طویل عرصہ تک جنگ جاری رہی ہے جس کے باعث ان علاقوں میں بہت اختیاط کی ضرورت تھی۔ اگر کوئی واقعہ رونما ہوگیا ہے تو دانش مندی اور حکمت سے معاملات کو سنبھالا جائے جس طرح میڈیا یکطرفہ رپورٹنگ کر رہا ہے، وہ کسی طور پر قابل تعریف نہیں اور فوج کی محبت کا ڈھول پیٹنے سے قوم یوتھ  کو بھی منع کیا جائے جو بظاہر جنگ شروع کروانے کے لیے بے چین نظر آتی ہے۔

 

 

 

 

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔