Get Alerts

خواتین میں ہم جنس پسندی کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟

خواتین میں ہم جنس پسندی کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟
مضمون کا متن پڑھنے سے پہلے قارئین کے لئے یہ یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ تحریر میں تمام تر خیالات مصنف کے ذاتی ہیں۔ نیا دور نے معمولی قطع و برید جو کہ انتہائی ضروری تھی کے علاوہ کچھ تبدیل نہیں کیا۔ ادارے کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




ہم جنس پسندی گناہ نہیں ہے۔ اس موضوع پر کافی دن پہلے لکھا جس میں ہم جنس پسندی کے حوالے سے صرف مردوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ مضمون چند ملاقاتوں کا احوال تھا۔ درج ذیل مضمون میں بھی کچھ جوان اور ڈھلتی عمر کی ہم جنس پسند خواتین کے ذاتی تجربات اور مشاہدات پرمبنی گفتگو کا احوال ہے۔ کوشش ہوگی کہ ہم جنس پسند خواتین کے خیالات اور باتیں جوں کی توں قارئین کی نذر کر دوں۔



یہ 2014 کی بات ہے جب پہلی بار کسی ہم جنس نوجوان عورت کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا تھا۔ فرضی نام کا سہارا لینا مجبوری ہے۔ ناصرہ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ عالمہ فاضلہ ہے۔ ناصرہ کی پارٹنر پاکستان کے نجیب الطرفین سید گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون سیدہ عاطقہ (فرضی نام) ہے۔ گذشتہ دنوں ان سے کچھ خصوصی بات چیت کی درخواست کی جو انہوں قبول کر لی۔ ناصرہ اور سیدہ عاطقہ کہتی ہیں کہ جس طرح مرد مردوں سے غیر فطری طریقہ سے جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں اسی طرح عورتیں بھی عورتوں سے غیر فطری طریقے سے جنسی تسکین حاصل کرتی ہیں۔ ایسی عورتیں جو گھر بسانا چاہتی ہیں اور ان کی اپنے مرد سے تسکین نہیں ہوتی ہے۔ مردوں میں جنسی کمزوری بھی بڑی وجہ ہے۔



یہ بھی پڑھیے: ’ہم جنس پسندی اختیاری فعل نہیں ہے‘







دوسری صورت میں اُن کے خاوند کے کسی دوسری عورت سے ناجائز تعلقات ہیں تو وہ اپنے آپ کو اس بندھن سے آزاد کرا لیتی ہیں اور جب دوسری جگہ اس کی شادی ہوتی ہے تو وہاں پر بھی یہی صورتحال پیش آتی ہے تو ایسی عورت کے ذہن میں مرد کے لئے شدید نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ہم جنس پسندی کی طرف راغب ہونے لگتی ہے۔ ہم جنس پسند زیادہ تر طلاق یافتہ خواتین ہیں۔



ہم جنس پسند خواتین کو انگریزی میں لیزبیئن کہا جاتا ہے۔ جس کاتعلق لیزبیئن جزیرے سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ بحیرہ ایگئین میں واقع ہے۔ سیفو نامی عورت اس جزیرے کی وجہ شہرت ہے۔ جس نے سات سو سال قبل مسیح اپنی شاعری میں عورتوں سے اپنی محبت کا اظہار بھی کیا ہے۔ سیفو کے نام پر عورتوں میں ہم جنس پسندی کو سیف ازم بھی کہتے ہیں۔ یونانی لیزبیئن کی بجائے ٹریبئن اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ اس کے معنی باہم رگڑنے کے ہیں۔ یہ اصطلاح نسوانی ہم جنس پسندی کے معروف عمل کے باعث معروف ہوئی۔  موجودہ دور میں اصطلاحاً ایسی عورت کو لیزبیئن اور اس عمل کو لیزبئین ازم کہا جاتا ہے۔



یہ بھی پڑھیے: شادی کی تاریخ: ہم جنس شادی کب شروع ہوئی، محبت اور مذہب کا عمل دخل کتنا پرانا ہے







مردانہ ہم جنس پسندی کی طرح زنانہ ہم جنس پسندی کی اصل وجوہات پر ماہرین متفق نہیں ہیں اور اس کی وضاحتی کوششوں کا باقاعدہ آغاز افلاطون کے سمپوزیم سے ہوتا ہے۔ اس نے مردانہ کی طرح زنانہ ہم جنس پسندی کی وجہ بھی پہلے پہل انسان کے تین صورتوں یعنی نر، مادہ اور دو جنسی انواع میں پیدا کیے جانے میں تلاش کی ہیں۔ اس وضاحت کے لئے کی گئی دوسری کوشش بھی یونان میں پیرامینیڈس نے 450 قبل مسیح میں کی۔ جدید دور میں اس کی ممکنہ وجوہات کو معاشرتی، نفسیاتی اور فعلیاتی عوامل میں تلاش کیا جاتا ہے۔

فرائیڈ کے مطابق ممکن ہے کہ ہم جنس پسند خاتون میں ایام جنین کے مرد کے کچھ خصائص رہ گئے ہوں جس کی وجہ اس میں مردانہ خصلتیں پروان چڑھتی ہوں جو نوجوانی میں بڑھ جاتی ہیں۔ یہی خصلتیں بظاہر زنانہ جسم رکھنے والی عورت میں اندر ہی اندر مردانہ پن نمایاں کرتا ہے اور وہ اپنی ہم جنسوں میں کشش محسوس کرنے لگتی ہے۔



دوسری ملاقات طیبہ اور کوثر سے ہوئی۔ طیبہ ایم ایس سی کی طالبہ ہے جبکہ کوثر ایک کمپنی میں جاب کرتی ہے۔ دونوں کی ملاقات ایک نجی وومن ہاسٹل میں ہوئی۔ یہاں وہ روم میٹ ہیں۔ طیبہ بتاتی ہے کہ کوثر جب ہاتھ لگاتی تو اسے لگتا کہ کسی لڑکے نے ٹچ کیا ہے۔ کوثر کا کہنا ہے کہ طبیہ میں اس کو بہت کشش محسوس ہوتی تھی۔ کوثر کے مطابق وہ جسمانی لحاظ سے بظاہر عورت ہے مگر اندر سے حسیات اور جذبات مردوں والے ہیں۔ کوثر کے مطابق وہ علاج بھی کروا رہی ہے۔

اگر ہم جنس پسندی کی وجوہات تلاش کرنے کی بات کی جائے تو شاید ہی کوئی ایک بڑی وجہ تلاش کی جا سکے۔ حقیقت یہی ہے کہ مرد و خواتین خاص حالات کے زیر اثر آ کر ہم جنس پسندی کی جانب چلے جاتے ہیں۔ وہ حالات کسی بھی نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔