صحت کی سہولیات: عوام کا بنیادی حق

صحت کی سہولیات: عوام کا بنیادی حق
علاج معالجے کی سہولیات ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ہر شہری کو علاج معالجے کی یکساں سہولیات میسر ہیں۔ اس کے برعکس وطن عزیز کے شہريوں کی اکثريت اس حق سے محروم ہے۔ ہمارے ملک میں بنیادی اور عام بیماریوں سے بھی بے شمار اموات واقع ہو جاتی ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے ڈاکٹروں کی تعداد بھی بہت کم ہے اور جو ڈاکٹر موجود ہیں انکی اکثریت گاؤں میں جانے کو تیار نہیں ہوتی۔ گاؤں اور دیہاتوں ميں اتائیت، غیرتربیت یافتہ دائیوں، نیم حکیموں اور جعلی ڈاکٹروں کی بـھرمارہے۔ ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی تعداد بھی بہت کم ہے اور جو ہیں ان میں سہولیات، سازوسامان اور ادویات کا فقدان ہے۔ زچگی کے دوران اموات کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔

ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹروں کی زیادہ توجہ اور دلچسپی اپنے پرائیويٹ کلینکس پر ہے۔ ہسپتالوں میں غریب اور نادار مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں اور سٹاف کا رویہ بھی بے حد ہتک آمیز ہوتا ہے۔ جعلی اور کم معیار والی ادویات کی بھرمار ہے اور مقام افسوس ہے کہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ ان تمام معاملات کی چیکنگ اور مانیٹرنگ کا فعال، آزادانہ اور شفاف نظام موجود نہیں اور اگر بھول کر کوئی کارروائی کی بھی جائے تو احتجاج اور ہڑتالوں کی صورت میں بلیک میلنگ شروع کر دی جاتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں بڑھتی ہوئی بیماریوں کی بڑی وجوہات ميں تعلیم و آگاہی کی کمی، ملاوٹ، آلودگی، گندگی، صاف پانی کا نہ ہونا، ڈاکٹروں، ادویات اور سہولیات کی کمی ہے۔

سب سے بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ عوام پر لگایا جائے۔ نیشنل ہيلتھ سسٹم کی طرز پر ہر شہری کو صحت کی یکساں اور مفت سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔ پورے ملک میں ہسپتالوں کا جال پھیلایا جائے۔ گاؤں میں بھی شہروں جيسی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔ میڈیکل کالجوں میں جس کوٹے پر طلبہء کا داخلہ ہو اسی علاقے میں کام کرنے کی شرط بھی رکھی جا سکتی ہے۔ پرائيویٹ پریکٹس پر پابندی ہونی چاہیے یا اگر یہ ممکن نہ ہو تو سرکاری ہسپتالوں می ہی شام کے اوقات میں مناسب فیس میں پریکٹس کی اجازت ہونی چاہیے۔ ڈاکٹروں اور عملے کو عالمی معیار کی تنخواہیں اور سہولیات دے کر مؤثرقانون سازی کے ذریعے ہڑتالوں اور بلیک میلنگ کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ دواؤں کا عمدہ معیار یقینی بنانے کے لئے ملٹی نیشنل اور اچھی شہرت کی حامل چند کمپنیوں کو ہی ادویہ سازی کی اجازت ہونی چاہیے۔

اتائيت و نیم حکیمی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ نگرانی اورمانیٹرنگ کا آزادانہ اور شفاف نظام ہونا چاہيے۔ مقامی کمیٹیاں بھی مؤثر ثابت ہو سکتی ہيں۔ شکایات درج کروانے کے آسان اور سادہ طریقے متعارف کرانا بے حد ضروری ہے۔ اس ضمن میں کمپلینٹ باکس اور آن لائن جیسی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہيں۔

قارئين، صحت جیسے اہم شعبے میں بہتری لانے کے لئے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں