کرونا میں تعلیم اور ہماری ترجیحات

کرونا میں تعلیم اور ہماری ترجیحات
سرکاری سکول میں طلبا کی کثیر تعداد میں حاضری قطار میں کھڑا بچہ ہاتھ میں سکول بیگ کی جگہ مومی شاپر میں کتابیں ڈالے بھرپور جوش کے ساتھ بغیر کسی ہچکچاہٹ تعلیم حاصل کرنے پہنچ گیا ، اس بچے کے جذبہ تعلیم نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔ جب کے میں اس سے کچھ دیر پہلے ایک بڑے نجی سکول میں گیا جہاں SOPs کا انتظام تو تھا لیکن بچوں کی قلیل حاضری کرونا کا خوف ظاہر کر رہی تھی ۔ یہ تصویر 30 ستمبر کی ہے جب سکول جو مارچ کے وسط سے بند پڑے تھے دوبارہ کھول دیے گئے ۔
اسی سکول کے پرنسپل اجمل صاحب نے بتایا کے نا پہلے لاک ڈاون میں کوئی آن لائن کلاس کا بندوبست کیا گیا نا ہی اب جب دوسرا لاک ڈاون جو 26 نومبر سے شروع ہے۔ نجی تعلیمی ادارے پہلے لاک ڈاون کی طرح دوسرے میں بھی آن لائن کلاس کا عمل احسن انداز میں انجام دے رہے ہیں ۔ جبکہ سرکاری سکول نے صرف عارضی طور پر نویں اور دسویں جماعت کے لیے ایک وٹس ایپ گروپ بنا دیا ہے جس میں طلبا اساتذہ سے مشکل میں رابطہ کر سکتے ہیں ۔

تاجروں نے تو پہلے لاک ڈاون میں چار دن ہی صبر کیا پھر اپنی من مانی کی چاہے کھلم کھلا یا چھپ کے۔ کیا کریں معیشت بھی چلانی تھی اور کیا ہوسکتا ہے ۔ لیکن اگر مقتدرحلقے یہ سمجھ جائیں کے علم وہ طاقت ہے جس کو زوال نہیں بشرطیکہ کی سب کو برابر میسر آئے ۔ اور کوئی جامعہ مضبوط حقیقی منصوبہ مرتب کیا جاے تاکہ ان تک آن لائن کلاس کی رسائی ممکن ہو سکے۔ ان سرکاری سکول کے غریب پر علم کے طالب بچوں کو۔

تصاویر: عون جعفری