آن لائن میگزین بلوچستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ساجد حسین بلوچ ایک ماہ سے لاپتہ

آن لائن میگزین بلوچستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ساجد حسین بلوچ ایک ماہ سے لاپتہ
آن لائن میگزین بلوچستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ساجد حسین بلوچ تقریباً ایک ماہ سے لاپتہ ہیں اور اب تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آن لائن میگزین بلوچستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ساجد حسین بلوچ ایک ماہ سے لاپتہ ہیں۔ میگزین کے ایڈیٹوریل بورڈ نے گذشتہ ہفتے یہ خبر دی کہ ساجد حسین 2 مارچ سے سوئیڈن کے شہر اوپسالا سے لاپتہ ہیں اور اس سلسلے میں سوئیڈن پولیس کے پاس 3 مارچ کو مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔

پریس کو جاری کردہ بیان کے مطابق ان کے ٹھکانے یا ان کی خیر و عافیت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں اور نہ ہی پولیس نے تحقیقات میں ہوئی پیشرفت سے ان کے اہلخانہ یا دوستوں کو آگاہ کیا ہے۔

ان کے بھائی واجد بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے 14 روز تک اس شبے میں انتظار کیا کہ ساجد کو کہیں قرنطینہ نہ کر دیا گیا ہو لیکن کافی وقت گزرنے کے بعد وہ اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ساجد حسین، جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہونے کے بعد تقریباً 8 برس قبل ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

ان کی اہلیہ شہناز نے کا کہنا ہے کہ ساجد حسین نے بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے پر کام کیا تھا لیکن 2012 میں منشیات کے سرغنہ امام بھیل کو بے نقاب کرنے والی رپورٹ پر انہیں موت کی دھمکیاں ملی تھیں۔ انہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے، جس کے بعد جب وہ ایک تحقیقاتی کہانی پر کام کر رہے تھے تو کوئٹہ میں کچھ لوگ ان کے گھر میں گھس کر ان کا لیپ ٹاپ اور کاغذات لے گئے تھے۔

اہلیہ نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ ستمبر 2012 میں ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اس کے بعد وطن واپس نہیں آئے۔ سوئیڈن میں موجود ان کے دوست تاج بلوچ کا کہنا تھا کہ ساجد حسین کے لاپتہ ہونے سے ایک روز قبل ان کی ملاقات ہوئی تھی اور ہر چیز معمول کے مطابق لگ رہی تھی۔ تاہم اگلے روز ان کا فون بند پایا گیا اور انہوں نے کسی کال کا جواب بھی نہیں دیا، آخری مرتبہ انہیں اس وقت سنا گیا تھا جب وہ ہاسٹل آفس میں موجود تھے اور اپنے کمرے کی چابی مانگی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ دوبارہ کال کرتے ہیں۔

تاج بلوچ نے بتایا کہ جب انہوں نے اوپسالا پولیس سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ بعض اوقات لوگ تنہائی اختیار کر لیتے ہیں تاکہ کوئی ان کی پرائیویسی متاثر نہ کرسکے تاہم زور دینے پر پولیس نے سوئیڈن کی ایک غیر سرکاری تنظیم مسنگ پیپل کے ساتھ مقدمہ درج کر لیا اس کے بعد اب تک اس کیس سے متعلق کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔

دوسری جانب اہلِ خانہ کو ان کی گمشدگی کے پسِ پردہ ملوث عناصر کے بارے میں کوئی علم نہیں لیکن ان کی جانب سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ سوئیڈن جیسے ملک جو آزادی صحافت کی حمایت کرتا ہے وہاں ایک صحافی کس طرح لاپتہ ہوسکتا ہے۔ ہمیں اب بھی یقین ہے کہ سویڈش حکام ہمیں انصاف دینے سے انکار نہیں کریں گے اور ہمیں جواب ضرور ملے گا۔

خیال رہے کہ ساجد حسین انگریزی اخبار دی نیوز کے ڈیسک ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔