تقریباً دو ماہ سے سویڈن کے شہر سے لاپتہ ہونے کے بعد مقامی پولیس نے پاکستانی صحافی ساجد حسین کی موت کی تصدیق کردی ہے۔ ساجد کی لاش ایک ہفتے پہلے اُپسالہ شہر کے نزدیک دریا کے کنارے ملی تھی، جس کے بعد ساجد کے گھر والوں سے ساجد کی لاش کی شناخت کرنے میں وقت لگا۔
ساجد کے ساتھ سویڈن میں رہائش پذیر ان کے دوست تاج بلوچ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ مقامی پولیس ساجد کی شناخت کرنے کے لیے اُن کے خاندان سے سوالات کرتی رہی کہ انھوں نے کس رنگ کے کپڑے پہنے تھے، کیا دانتوں کی کوئی سرجری کرائی تھی اور دیگر ملتے جلتے سوالات۔ بالآخر جمعرات 30 اپریل کی رات کو پولیس نے تصدیق کردی کہ اُپسالہ کے دریا کے کنارے ملنے والی لاش ساجد کی ہے۔
یاد رہے کہ ساجد حسین آن لائن میگزین بلوچستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر تھے اور دو ماہ سے لاپتہ تھے۔ میگزین کے ایڈیٹوریل بورڈ نے مارچ میں بتایا تھا کہ ساجد حسین 2 مارچ سے سویڈن کے شہر اُپسالہ سے لاپتہ ہیں اور اس سلسلے میں سویڈن پولیس کے پاس 3 مارچ کو مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔
لاپتہ ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد ان کے بھائی واجد بلوچ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ انہوں نے 14 روز تک اس شبے میں انتظار کیا کہ ساجد کو کہیں قرنطینہ نہ کر دیا گیا ہو لیکن کافی وقت گزرنے کے بعد وہ اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ساجد حسین، جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہونے کے بعد تقریباً 8 برس قبل ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
ان کی اہلیہ شہناز نے کا کہنا ہے کہ ساجد حسین نے بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے پر کام کیا تھا لیکن 2012 میں منشیات کے سرغنہ امام بھیل کو بے نقاب کرنے والی رپورٹ پر انہیں موت کی دھمکیاں ملی تھیں۔ انہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے، جس کے بعد جب وہ ایک تحقیقاتی کہانی پر کام کر رہے تھے تو کوئٹہ میں کچھ لوگ ان کے گھر میں گھس کر ان کا لیپ ٹاپ اور کاغذات لے گئے تھے۔
اہلیہ نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ ستمبر 2012 میں ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اس کے بعد وطن واپس نہیں آئے۔
سویڈن میں موجود ان کے دوست تاج بلوچ کا کہنا تھا کہ ساجد حسین کے لاپتہ ہونے سے ایک روز قبل ان کی ملاقات ہوئی تھی اور ہر چیز معمول کے مطابق لگ رہی تھی۔ تاہم اگلے روز ان کا فون بند پایا گیا اور انہوں نے کسی کال کا جواب بھی نہیں دیا، آخری مرتبہ انہیں اس وقت سنا گیا تھا جب وہ ہاسٹل آفس میں موجود تھے اور اپنے کمرے کی چابی مانگی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ دوبارہ کال کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ ساجد حسین انگریزی اخبار دی نیوز کے ڈیسک ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔