سپریم کورٹ نے ایم این اے علی وزیر کی ضمانت منظور کر لی۔ ضمانت کا فیصلہ کرتے ہوئے علی وزیر کو چار لاکھ روپے کے مچلکے ٹرائل کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیا گیا۔ ۔
تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ نے ریاست کے خلاف بغاوت و دہشت گردی کے مقدمہ کے ملزم و رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت کی ضمانت منظور کر لی۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا کہ علی وزیرکے ساتھ شریک ملزمان کو رہا کر دیا گیا تھا، لہٰذا علی وزیر کو جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
دوران سماعت عدالت میں کالعدم ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کا نام لیے بغیر تذکرہ بھی کیا گیا۔ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ ریاست مذاکرات کرکے لوگوں کو چھوڑ رہی ہے، ہو سکتا ہے کل علی وزیر کیساتھ بھی معاملہ طے ہو جائے۔
جسٹس سردار طارق نے مزید کہا کہ لوگ شہید ہو رہے ہیں کیا وہاں قانون کی کوئی دفعہ نہیں لگتی ؟ کیا عدالت صرف ضمانتیں خارج کرنے کیلئے بیٹھی ہوئی ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا علی وزیر کے الزامات پر پارلیمان میں بحث نہیں ہونی چاہیے؟ علی وزیر نے شکایت کی تھی اسکا گلہ دور کرنا چاہیے تھا، اپنوں کو سینے سے لگانے کے بجائے پرایا کیوں بنایا جا رہا ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ علی وزیر کا ایک بھی الزام درست نکلا تو کیا ہوگا؟ شریک ملزمان کیساتھ رویہ دیکھ کر گڈ طالبان بیڈ طالبان والا کیس لگتا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ علی وزیر پر اس طرح کے اور بھی مقدمات ہیں جس پر جسٹس سرار طارق نے استفسار کیا کہ کیا دیگر کیسز میں ضمانت ہوگئی ہے؟ جس پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے جواب دیا کہ علی وزیر کی کسی اور مقدمہ میں ضمانت نہیں ہوئی۔
جسٹس سردار طارق نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی اور کیس میں ضمانت نہیں ہے تو اسے سنبھال کر رکھیں،
علی وزیر پر دہشتگردی کا مقدمہ نہیں بنتا، وہ دفعہ کیوں لگائی ہے؟
علی وزیر کے وکیل نے کہا کہ علی وزیر نے تقاریر میں صرف شکایت کی تھی، علی وزیر کی پشتو تقریر پر سندھی پولیس افسر نے مقدمہ کیسے درج کر لیا؟
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ریکارڈ سے واضح ہے کہ مقدمہ ترجمہ کرانے کے بعد درج ہوا، ضمانت پر رہا ہونے والے ملزمان اور علی وزیر کے مقدمے میں فرق کرنا ممکن نہیں ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود عدالت کے سامنے ایک عام آدمی اور عوامی نمائندوں میں کوئی فرق نہیں۔
سپریم کورٹ نے علی وزیر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو 4 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کر دی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تو جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ غلطی سے کاز لسٹ میں یہ مقدمہ ایک اور بنچ میں شامل کر دیا گیا تھا، حالانکہ ہم نے جمعہ کے روز سماعت کے دوران کیس کا اسی بنچ کے سامنے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔
دوران سماعت ایم این اے محسن داوڑ عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ کیس ملتوی ہونے کا سن کر علی وزیر کے وکیل آج اسلام آباد میں نہیں آئے ہیں، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہ کل ان کے وکیل کو بلا لیں، کل ہی کیس کی سماعت کریں گے۔ انہوں نے پراسیکیوٹر سندھ سے استفسار کیا آپ عدالت کیوں پیش نہیں ہوئے ہیں؟ تو انہوں نے کہا ہم تو عدالتی حکم کے پابند ہیں آپ نے بلایا ہے تو آگئے ہیں۔