اپنی آزادی کے ساتھ ہی پاکستان میں صحافتی آزادی حکومتوں کے آنکھوں میں چبھتی رہی ہے۔ چاہے وہ جمہوری دور ہو یا کسی ڈکٹیٹر کی حکومت، سب نے ہی کسی نہ کسی شکل میں اس حوالے سے خدشات ظاہر کیے ہیں۔ عموما آزادی اظہار کو دبانے کے لئے سخت قانون سازی کا سہارا لیا گیا۔ ان قوانین کی تاریخ پرانی ہے مگر پاکستان میں اس کا آغاز سیفٹی ایکٹ نامی قانون لا کر کیا گیا۔
آزادی اظہار اور صحافتی پاپندیوں کی نئی شکل آج کل پاکستان میں غیر اعلانیہ سنسر شپ کی صورت میں سامنے آئی ہے، اس پر اکثر گفتگو کی جاتی ہے اور لکھا جاتا ہے۔ مگر، جہاں آج کل آزادی اظہار پر قدغنیں اور پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور بیشتر صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ وہیں ترقی یافتہ ممالک اور حکومتیں بھی ان معاملات میں الجھی نظر آتی ہیں۔
حالیہ مثال آسٹریلیا کی ہے، جہاں متعدد بڑے اخبارات و رسائل ان دنوں آزادیِ صحافت کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ جس کا آغاز رواں سال جون میں ہوا۔ جب مقامی پولیس کی جانب سے دارالحکومت کینبرا میں واقع نیوز دفتر اور بعدازاں سڈنی میں آسٹریلیائی نشریاتی کارپوریشن کے ہیڈکوارٹر اور ایک صحافی کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔
حکومت اور صحافتی اداروں کے درمیان اس کشیدگی کا آغاز تب ہوا، جب ایک روزنامہ میں آسٹریلوی سپیشل فورس کے ہاتھوں افغانستان میں قتل ہونے والے مردوں اور بچوں کی تفصیل شائع کی گئی۔
آسٹریلوی حکومت اب تک اطلاعات کی رسائی اور ابلاغ کے حوالے سے 22 بار قانون سازی کر چکی ہے۔ حکومت کے ترجمانوں کا کہنا ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتے۔ مگر وہ خفیہ اطلاعات کی حفاظت پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ایسی آرا اور معلومات کی فراوانی نہیں چاہتے جو ہماری ثقافتی اقدار کے منافی ہو۔
اس سلسلے میں جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ صحافتی تنظیموں کا اتحاد اور یکجہتی ہے، جس کی مثال پاکستان میں کم ہی ملتی ہے۔ احتجاج اور کشیدگی کو اس وقت بین الاقوامی میڈیا میں پذیرائی ملی جب گزشتہ ہفتے آسٹریلیا کے تمام بڑے اخبارات و رسائل نے بطور احتجاج پہلا صفحہ خالی چھوڑ دیا اور بڑے نشریاتی اداروں پر پرائم ٹائم دورانیے میں بلیک آؤٹ چھایا رہا۔
ملک کے بڑے اخبارات نے لکھا کہ ''ایسی صورت میں جب حکومت آپ سے سچ بولنے کا حق چھین لے تب وہ کیا شائع کرسکتے ہیں؟"
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر آسٹریلوی حکومت کے ان اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے صحافیوں، قانون دانوں اور تجزیہ کاروں نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔