تین ماہ پر محیط پارلیمانی کاوشوں کے نتیجے میں افغانستان کے لئے نئی ویزا پالیسی کی منظوری دے دی گئی

تین ماہ پر محیط پارلیمانی کاوشوں کے نتیجے میں افغانستان کے لئے نئی ویزا پالیسی کی منظوری دے دی گئی
اسلام آباد - وفاقی کابینہ نے اپنے اجلاس میں افغانستان کے لئے نئی ویزا پالیسی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ منظوری ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب قومی مصالحت کی اعلی کونسل کے صدر ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ پاکستان کے 3 روزہ دورہ پر ہیں۔

افغانستان کے شہریوں کے لیے نئی ویزا پالیسی کے تحت قیام او ویزا کی مدت اور اندرج کی تعداد کو کافی حد تک تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس تبدیلی سے خاص طور پر افغان بھائیوں ، طلباء، تاجر، سرمایہ کاروں اور مریضوں کو سہولت میسر ہوگی۔ طورخم بارڈر پر مریضوں کو ویزا (چھ ماہ تک) دیا جائے گا تاکہ وہ کابل میں پاکستانی سفارتخانہ یا پاکستانی قونصل خانے جانے کی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔افغانستان میں پاکستان کا سفارتخانہ اور کونسلحانے ایک سال کے لیے وزٹ ویزا کے ساتھ ایک سے زیادہ اندراج اور پانچ سال کے لیے بزنس ویزا دے سکیں گے جو پاکستان میں قابل توسیع ہوگا۔ افغان طلباء کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ، کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب صرف ایک سال کی بجائے اپنی تعلیم کے پورے عرصہ کے لئے ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔

ویزا پالیسی کی منظوری پچھلے تین ماہ سے طویل پارلیمانی تبادلہ خیال کے سلسلے میں ہوئی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اس معاملے پر نوٹس لیا اور اس کے حل کے لئے پارلیمانی ٹاسک فورس تشکیل دی۔ اس ٹاسک فورس کی سربراہی وزیر اعظم کے معاون خصوصی ارباب شہزاد نے کی۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی کی سربراہی میں ٹاسک فورس کے متعدد اجلاس منعقد ہوئے اور بارڈر کراسنگ پوائنٹس کے دورے بھی کیے گئے۔اسپیکر نے خود متعدد اجلاسوں کی صدارت کی جس میں ویزا پالیسی میں تبدیلی لانے کے لیے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

نئی ویزا پالیسی افغانستان کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات کے تناظر میں مرتب کی گئی ہے اس سے لوگوں کو قریب لانے اور عام افغان عام افغان شہری کو سہولت فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس پالیسی سے باہمی تجارت کو بہت فائدہ ہوگا، جس سے دونوں ممالک میں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ اس پالیسی سے صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام خاص طور پر مستفید ہونگے۔

طارق وردگ اسلام آباد میں شعبہ صحافت میں 2006 سے کام کررہاہے۔ مختلف انگریزی کے اخبارات میں بطور سٹاف رپورٹر کام کرچکے ہے اور اب بھی لکھتے ہے۔