’ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر ہمیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑا جارہا ہے‘

’ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر ہمیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑا جارہا ہے‘
پچاس سالہ متین خان کے آباؤاجداد گزشتہ کئی دہایوں سے ضلع مہمند اور افغانستان کے بارڈر پر رہائش پذیر ہیں اور زیادہ تر گزر بسر اُن کا مال مویشیوں اور چھوٹی موٹی زمینداری پر ہو جاتا ہے۔ ان کا گاؤں سرسبز کھیتوں کے بیچ واقع ہے۔ ان کے گاؤں پہنچنے تک ہمیں تقریباً  تیرہ مختلف فورسز کے تقریبا سولہ چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑا جبکہ متین کے گاؤں کے اطراف میں تقریبا چار چیک پوسٹ واقع ہیں کیونکہ یہ پاکستان بارڈر پر ایک حساس علاقہ ہے جہاں ماضی میں سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے انچ انچ کی زمین واپس لینے کے لئے جان کی قربانیاں دیں ہے۔

امن و امان کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے متین خان اپنے خاندان سمیت چارسدہ ہجرت کر گئے۔ ہجرت کرنے کی وجہ سے ان کی نہ تو کھیتی باڑی رہی اور نہ ہی مال مویشی کا کام جس کی وجہ سے انھوں نے چارسدہ کے بازار میں ایک دکان کھولی اور وہاں کاروبار شروع کیا۔ متین خان کے علاقے میں امن آنے کے بعد ان کے بچوں نے واپس گاؤں جانے کا ارادہ ترک کیا اور والد سے اصرار کیا کہ ہم ادھر ہی کاروبار کرنا چاہتے ہیں مگر متین خان واپس اپنے گاؤں آئے۔ ان کے بیٹوں نے چارسدہ میں والد صاحب کی دکان کو کندھا دینے کا فیصلہ کیا اور آج کل وہ وہی مقیم ہیں۔ متین خان نے واپسی کے بعد اپنے گھر کو ٹھیک کیا جو آپریشن میں متاثر ہوچکا تھا جبکہ اس کے ساتھ انھوں نے کھیتی باڑی بھی شروع کی۔ متین خان نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ گزشتہ دس سالوں سے وہ سکون کی نیند نہیں سوئے کیونکہ ان کو یہی لگتا تھا کہ اب دوبارہ طالبان اور فورسز کے بیچ جنگ شروع ہوجائے گی اور ان کے گھر پر بھی گولہ گر جائیگا۔ وہ کہتے ہیں کہ  ہجرت کے بعد بھی سکون نہیں ملا کیونکہ اپنے اباؤاجداد کے زمین سے باہر نیند نہیں آتی اور نہ ہی سکون ملتا ہے۔

متین خان نے کہا کہ واپسی پر سکون نصیب ہوئے کہ چلو اب امن اگیا تو ہماری جان و مال محفوظ ہوگی اور یہ خوش فہمی کچھ ہی مہینوں کی تھی کیونکہ ابھی ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیں دوبارہ سے طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑا جارہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کچھ تنظیمیں میرے بچوں سے دس لاکھ روپے بھتہ مانگ رہے ہیں جبکہ ہمارا کل کاروبار پانچ لاکھ سے بھی کم ہے تو ہم بھتہ کیسے ادا کریں؟ انھوں نے مزید کہا کہ جب میرے بیٹوں نے پیسے دینے سے انکار کیا تو وہ دن کی روشنی میں وہاں پہنچ گئے اور ہجرے میں بھیٹھ کر کہا کہ ہم تب تک نہیں جائینگے جب تک ہمیں چندے کے لئے پیسے نہیں ملینگے۔

متین خان کہتے ہیں کہ  میں نے ان کو کہا کہ ہمارا کل کاروبار چار پانچ لاکھ روپے کا ہے تو ہم کیسے اتنے پیسے ادا کریں جس کے بعد انھوں نے حکم دیا کہ چلو لاکھ روپے نکال دو۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے ان کو دو دن کا وقت دیا کہ آکر پیسے لے جاؤ جس کے بعد میں ضلعی انتظامیہ کے دفتر پہنچا اور اس کے بعد سیکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ میں گیا اور دونوں جگہوں پر شکایت درج کرادی۔ متین خان نے کہا کہ دونوں جگہوں پر مجھے یہی بتایا گیا کہ ہم کل اسی وقت پہنچیں گے جس وقت وہ آئینگے۔ متین خان کہتے ہیں جب طالبان کے لوگ پہنچ گئے تو میں نے دونوں جگہوں پر رابطہ کیا کہ آپ آجاؤ اور ان کو گرفتار کرو مگر وہ پورے چھ گھنٹے بعد پہنچے تب جب میں بھتہ ادا کرچکا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پھر وہ سیکیورٹی فورسز کے لوگ مجھ سے پوچھ گچھ کررہے تھے کہ بتاؤ وہ لوگ کہاں گئے اور وہ اب کہاں ہونگے؟ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے ان کے سامنے منت کی کہ مجھے کیا معلوم ہے کہ وہ کہاں سے آئے تھے اور کہاں ہونگے جب میں نے ان کے سامنے جھولی پھیلائی کہ میری جان بخش دو تو وہ لوگ چلے گئے۔

نیا دور میڈیا کو پشاور میں مقیم سیکیورٹی فورسز کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ بارڈر کے اس پار طالبان کے مختلف گروپس دوبارہ سے منظم ہورہے ہیں اور  سرحد کے اس پار بھی ان کی گشت شروع ہوچکی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ حالات دوبارہ سے خراب ہورہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ صرف اپریشنز کرنے سے حالات ٹھیک نہیں ہونگے کیونکہ ہم نے اپریشنز کرکے عسکریت پسندوں کو ان  علاقوں سے نکالا ہے جب دہشتگردی کی مالی اور نظریاتی معاونت پر کوئی کام نہیں ہوا اور ان کی جڑیں تاحال باقی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس مفصل رپورٹ ہے کہ گزشتہ دو مہینے میں پنجاب، خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع سے تقریبا چار سو لوگ طالبان میں دوبارہ شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ چیک پوسٹ پر جھنڈا لہرانے سے نہ تو دہشتگردی ختم ہوسکتی ہے اور نہ ہی ریاستی عملداری بحال ہوسکتی ہے کیونکہ آج تک ہم مقامی لوگوں کو یہ یقین نہیں دلا سکے کہ ہم آپ کی جان و مال کے محافظ ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے عہدیدار نے کہا کہ جب تک لوگوں کے دل میں یقین پیدا نہیں ہوگا تو دہشتگردی ختم نہیں ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر لوگوں کو اب بھی لگتا ہے کہ مستقبل میں یہ علاقہ دوبارہ طالبان کے کنٹرول میں جاسکتا ہے تو وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرینگے۔ سیکیورٹی ذرائع نے مزید کہا کہ حکومت دوبارہ سے امن کمیٹیوں کو مسلح کررہی ہے جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہاں امن و امان کے صورتحال کشیدہ ہے۔

گل شرف کا تعلق بھی قبائلی اضلاع سے ہے۔ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ گل شرف کے گھر پر نامعلوم افراد نے بھتہ ادا نہ کرنے کی پاداش میں گزشتہ مہینے حملہ کیا مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ پہلے بھی بھتہ ادا کرچکا ہو اور امن و امان کے حالات کچھ وقت کے لئے جب نارمل ہوئے تو ہمیں لگا کہ اب ہم سکون سے جی پائینگے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ وہ عسکریت پسند دوبارہ سے حالات خراب کررہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ تین بار ہم نے حکومت کو شکایت کی کہ ہماری زندگیوں کو خطرہ ہے مگر کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے بھتہ ادا کرنے سے انکار کیا کیونکہ میں نے محنت کرکے حلال رزق کمایا ہے کوئی جوا نہیں کھیلا کہ میں ہر مہینے بھتہ ادا کرو۔ انھوں نے مزید کہا کہ بھتہ نہ دینے کہ انکار پر ایک ہفتے بعد میرے گھر پر بم حملہ کیا گیا جس کے بعد میں نے اسلحہ صاف کرکے ذاتی محافظوں کو پہرے پر لگادیا کیونکہ اگر درجن بھر عسکریت پسند درجن چیک پوسٹوں سے گزر کر میرے گھر تک پہنچتے ہیں اور میرے گھر پر حملہ کرکے صحیح سلامت واپس چلے جاتے ہیں تو میں اپنی حفاظت خود کرونگا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میرے محافظ سورہے ہیں اور وہ میری زندگی کی حفاظت نہیں کرسکتے۔

نوٹ: مقامی لوگوں کے اصرار پر نام اور علاقے کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں۔ 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔