میں آج اپنا نیا کالم لکھنے بیٹھا تو یہ سوچنے لگا کس موضوع پر لکھوں۔ سیاست اور جمہوریت پر طبع آزمائی کروں یا فیٹف کو موضوع بحث بناؤں۔ کٸی معتبر اور معروف صحافی حضرات ایک نقطے کو زیر بحث بناتے ہیں اور گھما پھرا کر پورا کالم لکھ دیتے ہیں اس کی وجہ ان کا تجربہ اور صاحب علم ہونا ہے، ہم تو ٹھہرے ناتجربہ کار اور اناڑی۔
احسن اقبال نے جو سجدہ سہو حال ہی میں کیا ہے اور جس کی وجہ سے مریم نواز کی سیاسی میدان میں دھماکے دار انٹری کو بھی گہن لگ گیا ہے، اس موضوع پر کٸی صفحے کالے کٸے جاسکتے تھے لیکن میرے ضمیر نے مجھے اس بات پر مجبور کیا کہ کراچی کی تاریخ کی بدترین بارشوں کو اپنا موضوع بحث بناؤں۔ روشنیوں کے شہر کراچی کے باسی آج کل اپنی زندگی کی تباہ کن بارشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان ریکارڈ توڑ بارشوں نے تباہی اور بربادی کے نٸے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں، لوگوں کی زندگی بھر کی پونجی ان بارشوں کی نظر ہوگٸی ہے اور وہ بےسروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بارش کا نوے سال کا ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے۔ سندھ کے وزیراعلی سید مراد علی شاہ اور گورنر عمران اسماعیل نے اس تباہی کی وجہ ان غیر قانونی تعمیرات اور بلند و بالا عمارتوں کو قرار دیا جو نالوں کے اردگرد تعمیر کی گٸی ہیں۔ گورنر صاحب نے مزید فرمایا کہ نالوں کے اردگرد جو عمارات تعمیر ہوئی ہیں ان کی وجہ سے نالے بہت حد تک سکڑ چکے ہیں اور بارش کے زیادہ پانی کو اپنے اندر سمونے کی اہلیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ گورنر نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کے ڈی اے کے ساتھ ساتھ سابقہ تمام حکومتوں کو کراچی کی بربادی کا ذمہ دار ٹھرا دیا۔
اس شہر بے مثال نے ملک کے چپے چپے سے آٸے ہوٸے ہر رنگ، نسل، فرقے اور مذہب کے افراد کو اپنے دامن میں پناہ دے رکھی ہے جو یہاں رہائش پذیر ہیں اور دیہاڑیاں لگاتے ہیں اور مال بناتے ہیں لیکن کراچی کو لوٹانے کے لٸے کوئی بھی نہیں تیار ہوتا۔ یہ عظیم شہرجو معاشی حب کہلاتا ہے پورے ملک کو پالتا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہر کوٸی اس کی بہتری اور ضروریات سے غافل دکھاٸی دیتا ہے اور اپنی کوتاہیوں سے جان چھڑا رہا ہے۔
کراچی میں بارشوں کے بعد پیدا ہونے والے نقصانات کی وجہ سے مراد علی شاہ سخت تنقید کا نشانہ بنے ہوٸے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی دس سال سے سندھ میں حکمران ہے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ کچھ نہ کچھ اس طرع کے اقدامات ہونے چاہیے تھے جس کی وجہ سے نقصانات میں واضع کمی ہوتی لیکن بات وہیں آکر رکتی ہے کہ ایسی شدید ترین بارش ہوٸی ہے جس نے کوٸی ایسی جگہ نہیں چھوڑی جو پانی میں نہ ڈوبی ہو۔ اٸیرپورٹ ٹرمینلز رن وے، پے اے ایف بیسز، تھانے، بنگلے اور تو اور بحریہ ٹاؤن جیسا جدید انفراسٹرکچر بھی محفوظ نہیں رہا۔
بحرحال ان علاقوں میں پانی کھڑا ہونے کی ذمہ داری مراد علی شاہ پر تو نہیں ڈالی جاسکتی۔ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت کی جگہ کسی اور پارٹی کی حکومت بھی ہوتی تب بھی حالات اسی طرع ہوتے۔ کراچی اس وقت شدید بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے اور اس وقت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجاٸے تمام پارٹیوں، گروہوں اور سماجی تنظیموں کو اس مشکل وقت سے اہلیان کراچی کو نکالنا ہوگا۔ چند دن پہلے کراچی کی تین جماعتوں پیپلز پارٹی، پی ٹی آٸی اور ایم کیو ایم کے مابین شہر کی بہتری کے لٸے ایک مشترکہ کمیٹی کے قیام کا فیصلہ ہوا لیکن مبصرین کے مطابق وہ اختلاف کی نظر ہوتا دکھاٸی دیتا ہے۔
اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوٸی تھی کہ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی نے کراچی کو سندھ کے ساتھ شامل کرنے کے اقدام پر سوال اٹھاتے ہوٸے اسے غیر آئینی قدم قرار دے دیا اس بات سے فریقین کی سنجیدگی کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔
گورنرعمران اسماعیل کے مطابق این ڈی ایم اے اور ایف ڈبلیو او کی 70 ٹیمیں کراچی کے مختلف علاقوں میں ریلیف آپریشن میں مصروف عمل ہیں۔ دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک ٹی وی اینکر کے سوال کا جواب دیتے ہوٸے مبہم انداز میں متحدہ کو کراچی کی بربادی کا ذمہ دار قرار دیا لیکن حتمی ذمہ داری پی پی حکومت پر ڈال دی۔ حالانکہ کٸی سالوں تک متحدہ کراچی کے سیاہ اور سفید کی مالک رہی۔ پرویز مشرف جو ماضی میں طاقتور ترین حکمران سمجھے جاتے تھے کے دور میں ایم کیو ایم کو بے پناہ مالی اور انتظامی اختیارات حاصل تھے، لہذا یہ جماعت کراچی کو اس حال پر پہنچانے کی سب سے زیادہ ذمے دار ہے۔
فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی اور مصطفی کمال اب آئیں بائیں اور شائیں کرتے ہوٸے کراچی کی تباہی سے کیسے جان چھڑا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ایک مئیر کو چھوڑ کر زیادہ تر کراچی کی مئیرشپ ایم کیو ایم کے پاس رہی ہے اور مصطفی کمال کراچی کی تاریخ کے سب سے طاقتور مئیر گردانے جاتے تھے اور ان کی بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ نالوں کے اردگرد بنی ہوئی بلندوبالا عمارات کے بارے میں سوال اٹھاتے تاکہ متعلقے ادارے الرٹ رہتے ہوٸے قانون کے دائرے کو کراس نہ کرتے۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ایم کیو ایم جس کے پاس ماضی میں ملک کی تمام جماعتوں سے زیادہ تنظیمی صلاحیت موجود تھی۔ پورے کراچی شہر کو ایم کیو ایم نے سیکٹرز اور سب سیکٹرز کی صورت میں کنٹرول کر رکھا تھا اور وہ چندہ اور کھالیں اکھٹی کرتے تھےاور اس سے جو رقم جمع ہوتی وہ کہاں جاتی تھی اس بات کا ذکر یہاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پورا کراچی اس بات سے واقف ہے۔ ان سے بھی سوال بنتا ہے کہ اتنی اچھی تنظیم سازی کے باوجود وہ کراچی کی بہتری کے لٸے کیوں نہیں کام کر سکے۔
ایس بی سی اے اور کے ڈی اے کے افسران سے اس بات کی پوچھ گچھ ہونی چاہٸے کہ کراچی میں جو بلند عمارات تعمیر ہوٸی ہیں وہ ماسٹر پلان کے مطابق تھیں یا نہیں۔ جس وقت تک ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جاٸے گا کراچی میں حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ علاوہ ازیں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی بننی چاہٸے جو تمام معاملات کی جانچ پڑتال کرے۔ ان بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو سامنےرکھتے ہوٸے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی ذمہ داریاں نیک نیتی سے انجام دینی ہوں گی۔