طالبان کے آنے سے کیا افغان اقلیتوں کی مشکلات بڑھیں گی؟

طالبان کے آنے سے کیا افغان اقلیتوں کی مشکلات بڑھیں گی؟
افغان دارالحکومت کابل پر طالبان کی طرف سے قبضے سے قبل ہی افغانستان میں مقیم بیشتر غیر مسلم اقلیتیں بالخصوص سکھوں اور ہندوؤں کو اپنی حفاظت کی فکر لگ گئی تھی جس کی وجہ سے وہ راتوں رات محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے لگے تھے۔

افغانستان کا سرحدی شہر جلال آباد برسوں سے غیر مسلم افغان شہریوں بالخصوص سکھوں اور ہندوؤں کا ایک بڑا شہر رہا ہے۔ قریباً پانچ لاکھ آبادی پر مشتمل یہ شہر پاکستان کے سرحدی علاقے طورخم سے قریباً 74 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ماضی میں صوبہ ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد مقیم تھی لیکن افغانستان میں مسلسل جنگ اور غیر یقینی حالات کے باعث اس اہم علاقے میں اب صرف چند سکھ اور ہندو خاندان ہی رہ گئے ہیں۔

جلال آباد کے مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ہندو خاندان پہلے ہی شہر چھوڑ کر قدرے محفوظ سمجھے جانے والے علاقوں کابل یا غزنی کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔

’آج کل جلال آباد میں شاید ہی کوئی ہندو خاندان رہ رہا ہوگا، اگر چند خاندان رہتے بھی ہوں تو وہ خود کو ہندو ظاہر نہیں کرتے بلکہ عام افغانوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ ’چونکہ سکھ شہری لمبی لمبی داڑھیاں رکھتے ہیں اور ان کے بال بھی بڑے ہوتے ہیں لہٰذا ان کی پہچان چہروں سے ہو جاتی ہے جب کہ ہندو داڑھی نہیں رکھتے۔ ان کے چہرے عام افغانوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ اگر وہ خود کا تعارف نہ کرائیں تو ان کو پہچنانا مشکل ہوتا ہے۔’



سکھوں کی ایک اچھی تعداد اب بھی جلال آباد شہر میں رہائیش پذیر ہے جہاں وہ عام افغانوں کی طرح اپنا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ تاہم، کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہاں رہنے والے زیادہ تر سکھ خاندان یا تو زیرِ زمین چلے گئے ہیں یا ملک چھوڑ کر انڈیا منتقل ہو گئے ہیں۔

جلال آباد شہر کے وسطی علاقہ زون ون میں سکھوں کا ایک چھوٹا سا گوردوارہ واقع ہے جہاں آس پاس سکھ افغان شہریوں کی کئی دکانیں ہیں جن میں وہ حکمت یا یونانی دوائیاں فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں۔

گذشتہ روز جب میں زون ون گوردوارہ پہنچا تو عمارت کے تمام دروازے بند پائے۔ عبادت گاہ کا مرکزی گیٹ اندر سے مقفل تھا، ایک افغان دوست کے توسط سے معلوم ہوا کہ گوردوارہ گذشتہ دس، بارہ دنوں سے بند ہے اور یہاں آج کل کوئی عبادت بھی نہیں ہوتی۔

مرکزی گیٹ کھٹکھٹانے پر اندر سے آواز آئی کہ گوردوارہ ہر قسم کی عبادت کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔ ہم نے درخواست کی کہ ہم گوردوارہ دیکھنا چاہتے ہیں، تو اندر سے پھر آواز آئی کہ نئی حکومت کےآنے سے تاحال غیر یقینی کی کفیت ہے اس وجہ سے عبادت گاہ کچھ عرصے کے لئے بند کر دی گئی ہے۔ گوردوارے کے اردگرد ہمیں کوئی طالب یا سکیورٹی اہلکار نظر نہیں آیا۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ گوردوارے کا چوکیدار ایک مسلمان ہے اور طالبان کے آنے کے بعد انہیں عبادت گاہ کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن وہ زیادہ باہر نہیں آتا بلکہ اندر ہی ہوتا ہے۔



جلال آباد میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق پچاس کے قریب سکھ خاندان رہائش پذیر ہیں جن میں زیادہ تر غیر مسلم افغان شہری تجارت کے پیشے سے منسلک ہیں۔ گوردوارے کے دونوں جانب کئی دکانیں واقع ہیں جن میں سکھ شہری یونانی دوائیں فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں۔ تاہم، ہمیں زیادہ تر دکانیں بند نظر آئیں۔ اگر کوئی دکان کھلی بھی تھی تو اس میں ہمیں کوئی سکھ دکاندار دکھائی نہیں دیا بلکہ وہاں کام کرنے والے تمام افغان مسلمان شہری تھے۔

مقامی لوگوں کے مطابق جو دکانیں بند ہیں وہ سکھ شہری چھوڑ کر نامعلوم مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ امکان بھی موجود ہے کہ یہ غیر مسلم شہری یہاں ننگرہار میں ہی کہیں محفوظ مقام پر موجود ہوں اور حالات بہتر ہونے پر پھر سے اپنے کاروبار پر آ جائیں۔

افغان شہری محمد خالد گذشتہ پانچ سالوں سے ایک سکھ یونانی ڈاکٹر کے ساتھ بطور ملازم کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جونہی طالبان کابل کے قریب پہنچے تو یہاں جلال آباد میں مقیم سکھوں میں ایک خوف کی کفیت پیدا ہوئی اور انہوں نے محفوظ مقامات کی طرف نکلنا شروع کر دیا۔



’میرا سکھ مالک کئی دن پہلے خاندان سمیت کابل منتقل ہو گیا ہے، جہاں آج کل وہ مرکزی گوردوارے میں پناہ گزین ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی سکھ خاندان دیگر شہروں سے بے گھر ہونے کے بعد وہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ مالک کی غیر موجودگی میں اب وہ دکان پر کام کر رہا ہے اور روزانہ ان سے فون پر بات ہوتی ہے۔

سکھ حکیم کی دکان پر کام کرنے والے ایک اور افغان ملازم رفیع اللہ نے کہا کہ ان کا مالک امیت سنگھ حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی شہر سے نکل گیا اور اب وہ خاندان سمیت انڈیا پہنچ گیا ہے۔

رفیع اللہ سے جب پوچھا گیا کہ کابل ایئر پورٹ پر انتہائی خطرناک حالات ہیں، ان کا مالک کیسے انڈیا چلا گیا تو اس پر ملازم نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ امیت سنگھ کیسے افغانستان سے نکل گیا لیکن وہ انہیں روزانہ انڈیا سے فون کرتا ہے اور دکان کے حساب کتاب کے بارے میں ان سے دریافت کرتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ وہ بہت جلد افغاسنتان آئے گا۔



رفیع اللہ نے مزید کہا کہ ان کی دکان گوردوارے کے بالکل سامنے واقع ہے، یہاں روزانہ دن میں دو، تین مرتبہ مسلح طالبان آتے ہیں اور گوردوارے کے ارد گرد چکر لگا کر چلے جاتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ تاحال گوردوارے پر کوئی سکیورٹی اہلکار تعینات نہیں کیا گیا ہے۔

طالبان کی طرف سے کابل پر قبضے کے بعد ابھی تک افغانستان بھر میں اقلیتوں پر کوئی حملہ نہیں ہوا ہے اور نہ انہیں ڈرانے دھمکانے کی کوئی اطلاعات ملی ہیں لیکن اس کے باوجود اقلیتوں میں خوف کی کفیت پائی جاتی ہے۔

بعض شمالی صوبوں سے اطلاعات ہیں کہ طالبان اہلکاروں نے مختلف اقلیتی نمائندوں سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں یقین دلایا ہے کہ ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی بلکہ انہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چند ہفتے قبل طالبان اہلکاروں نے صوبہ غزنی میں اہل تشیع کے محرم الحرام کی ایک تقریب میں شرکت کی تھی جس کا افغان ہزارہ برادری کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا تھا۔ اس تقریب کی وڈیو سوشل میڈیا پر خاصی مشہور ہو گئی تھی۔

واضح رہے کہ افغان پارلمینٹ کے اقلیتی رکن نریندر سنگھ خالصہ بھی بیس سکھ افغان شہریوں سمیت انڈیا منتقل ہو گئے ہیں۔

افغانستان میں حالیہ وقتوں میں اقلیتی اور ہزارہ برادریوں پر حملوں میں تیزی دیکھی گئی ہے جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گذشتہ سال کابل میں سکھوں کے ایک گوردوارے پر خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔ اس طرح ہزارہ کمیونٹی کے افراد بھی نشانہ بنتے رہے ہیں۔ ان حملوں کا الزام شدت پسند تنظیم داعش خراساں پر لگتا رہا ہے۔

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔