جوں جوں 2022 کا سال خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے، پاکستان میں انتظامی بحران مزید گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگرچہ رسمی طور پر اعلان نہیں کیا گیا تاہم تمام پہلو اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ پاکستان تکنیکی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6 ارب ڈالر کی کم ترین تاریخی سطح تک گر گئے ہیں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے فوری قسط کے اجرا کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ صورت حال اس سے بھی خراب ہو سکتی ہے۔ معیشت پر اشرافیہ کا قبضہ، برسوں کے ناقص انتظام اور جامد برآمدات کے ساتھ حالات فوری طور پر تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں نظر آ رہا۔ یہ بحران طویل عرصے سے جاری ہے جس نے سیاسی عدم استحکام کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ملکی معاملات پر کنٹرول برقرار رکھنے کی مایوس کن کوشش ہے۔
اب اگرچہ 2016 سے 2022 تک جاری رہنے والا عہد سیاہ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے، سینیئر فوجی بیوروکریٹس کے بے لگام عزائم اسی سال کے دوران بے نقاب ہوئے۔ یہی مسائل کیا کم تھے کہ سال 2022 میں دہشت گردی بھی ایک مرتبہ پھر پاکستان میں لوٹ آئی جو کہ افغانستان کی ناکام پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہے اور اس پر فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی انجینیئرنگ کی قیمت اس قدر بھاری ہے کہ 2023 کا سال غلطیوں سے بھرپور انہی بے جا مداخلتوں کے اثرات کو ختم کرنے میں گزر جائے گا۔
2022 کا آغاز سابق وزیر اعظم عمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان وسیع پیمانے پر سامنے آنے والی پھوٹ کے ساتھ ہوا (چند جرنیلوں کو چھوڑ کر جو عمران خان کے لئے قدرے مختلف منصوبے سوچ کے بیٹھے تھے)۔ ان دوریوں کو بھانپتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعتوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے منصوبے کو پھٹ سے عملی جامہ پہنانے پر کمربستہ ہو گئیں۔ شدید سیاسی جھگڑوں اور سازشوں کے نتیجے میں 10 اپریل کو عمران خان کو آخرکار حکومت سے ہٹا دیا گیا۔ تاہم اس عمل میں آئین کو پامال کیا گیا، پارلیمانی اصولوں کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور عمران خان نے آخری وقت تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انداز میں وزیراعظم ہاؤس سے بے دخل ہونے پر مزاحمت جاری رکھی۔
سیاسی پنڈتوں نے فرض کر لیا تھا کہ تقریباً چار سال تک حکومت میں رہ کر بدترین کارکردگی دکھانے کی وجہ سے حکومت کی تبدیلی ایک ہموار اور عام سا معاملہ ثابت ہوگا۔ یہ پنڈت اس وقت حیران رہ گئے جب شہباز شریف کی قیادت میں 16 جماعتی اتحاد کی حکومت کی حمایت کرنے کے بجائے ڈیپ سٹیٹ کے کچھ عناصر، نجی میڈیا، بزنس ٹائیکون اور شہری متوسط طبقہ عمران خان کی حمایت میں سامنے آ گیا۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہوئی کہ سماجی قوتوں کے اس نئے گٹھ جوڑ نے سابق فوجی سربراہ جنرل باجوہ اور ان کے ساتھیوں کو کچھ ایسے للکارا کہ آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ مہینوں تک پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولز کی جانب سے آرمی چیف کو ’غدار‘ قرار دیا جاتا رہا اور عمران خان کی جانب سے غیر ملکی سازشی بیانیے کو اتنی مرتبہ دہرایا گیا کہ ان کے حمایتی اسے حقیقت سمجھنا شروع ہو گئے۔ اس بڑے پیمانے پر پروپیگنڈے کے حملے میں عمران خان کی جانب سے ملک بھر میں 100 سے زائد تقریریں کی گئیں اور 60 سے زائد جلسوں میں انہوں نے مسلسل یہی بیانیہ بنائے رکھا۔ ملک میں نواز شریف یا ان جیسی کسی بھی مقبول شخصیت کی عدم موجودگی میں عمران خان واحد کھلاڑی کے طور پر کھل کا کھیلتے رہے۔
عمران خان کی بلند آہنگ اور انتشار انگیز شخصیت کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور میڈیا کے اندر سے بھی خفیہ حمایت حاصل رہی۔ مبصرین نے فوری طور پر اس تبدیلی کو محسوس کیا کہ جنرل ضیاء الحق کے بعد کے 34 سالوں میں کبھی کسی 'معزول' وزیر اعظم کو اتنی کھلی چھوٹ نہیں ملی تھی جتنی عمران خان کو دی گئی۔ سال کے وسط تک یہ واضح ہو گیا تھا کہ عمران خان کی سیاسی جنگ نہ تو قبل از وقت انتخابات کے لئے تھی اور نہ ہی یہ مغرب سے 'حقیقی آزادی' کی کوشش تھی۔ دراصل یہ سب شور شرابہ نومبر 2022 کے آخر میں ہونے والی نئے آرمی چیف کی تقرری پر اسٹیبلشمنٹ کے اندر دو دھڑوں کی باہمی چپقلش کا شاخسانہ اور عملی اظہار تھا۔ ستمبر کے آتے آتے عمران خان کی زبان پھسل گئی اور ان کے منہ سے اصل بات نکل گئی جب انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ نئے آرمی چیف کی تقرری ان کا اختیار ہے۔ اگرچہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جو قائد حزب اختلاف کو اس فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ دار بننے کی اجازت دیتا ہو لیکن عمران خان اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ان کے جذباتی حمایتی ایسی کوئی دلیل نہیں سن رہے تھے اور متواتر اس کے برعکس سوچ رہے تھے۔
پی ڈی ایم جماعتوں کی نئی نئی آنے والی حکومت اس مطالبے کے سامنے ہرگز جھکنے کو تیار نہ ہوئی۔ انہوں نے تحمل سے نومبر کے آنے کا انتظار کیا جب وہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے ذریعے اپنا ٹرمپ کارڈ کھیلنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ 27 نومبر کو وزیر اعظم شہباز شریف ایسا آرمی چیف تعینات کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ نہ ہی عمران خان کا منظور نظر ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ میں موجود عمران خان کے خیر خواہوں کی مرضی کا آدمی ہے۔ نسبتاً غیر سیاسی آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد ایک نئی شروعات ہوئی۔ نئے چیف کے بارے میں خبریں ہیں کہ وہ حالیہ دنوں میں اپنے گھر کے اندرونی معاملات ٹھیک کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے میں مشغول ہیں۔
غیر یقینی صورت حال سے بھرپور پاکستان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ فوج سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے دستبردار ہو گئی ہے تاہم ادارے نے یقینی طور پر ایک سبق سیکھ لیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ناقابل اعتبار اور غیر مستقل مزاج گھوڑے پر شرط لگانے میں قطعاً کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ سیاسی معاملات سے ایک حکمت عملی کے تحت پسپائی اختیار کرنے کا سلسلہ سال 2023 میں بھی چلتا رہے گا۔ تاہم یہ مرحلہ قلیل مدتی نوعیت کا ہو گا کیونکہ معاشرے اور سیاست میں تفاوت کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے اور شہری طبقہ بھی اصول و ضوابط کے مطابق چلنے والے کسی مربوط طاقت کے مرکز کے طور پر منظم ہونے میں ناکام نظر آ رہا ہے۔
اس رسہ کشی کا سب سے زیادہ نقصان فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اٹھانا پڑا کیونکہ اس کے نتیجے میں معاشرے میں موجود ان کے وقار اور غیر معمولی حیثیت میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور واقع ہوئی۔ عمران خان حقیقی اور غیر حقیقی دونوں طرح کی تقسیم پیدا کرنے کے پینترے کھیل کر ہمیشہ کے اتحادیوں یعنی متوسط طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین پھوٹ پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ دھڑے بندی کی ان افواہوں نے سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی حاصل کی اور نئے فوجی سربراہ کی تقرری کے بعد دو جرنیلوں کے استعفے نے ان قیاس آرائیوں کو اور بھی تقویت بخشی۔ کینیا میں صحافی اور اینکر ارشد شریف کے بہیمانہ قتل، عمران خان پر حملے اور پی ٹی آئی کی جانب جھکاؤ رکھنے والے صحافیوں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات کے اندراج نے اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کو مزید ابھارا۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کا مقابلہ نئے آرمی چیف کو کرنا ہو گا۔
ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ٹیکنوکریٹس پر مشتمل طویل مدتی نگران سیٹ اپ لانے کے بارے میں قیاس آرائیاں عروج پر ہیں۔ اس حربے کی کامیابی کے قطعاً کوئی امکانات نہیں ہیں۔ ٹیکنوکریٹس کی قانونی حیثیت بھی کمزور ہو گی اور انہیں ممکنہ طور پر تمام سیاسی قوتوں کی مشترکہ مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس طرح کے تجربے سے توازن پھر سے فوج کے حق میں چلا جائے گا اور یہ امر لازمی طور پر نواز شریف اور عمران خان دونوں کے لئے ناقابل برداشت ہوگا۔
2022 کے دوران ملک دو دہائیوں میں پیش آنے والی بدترین قدرتی آفت سے دوچار ہوا اور اس کے نتیجے میں ماحولیاتی تبدیلی کے بحران کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ اس آفت سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا۔ شاید اس سال کی سب سے اچھی خبر عالمی سطح پر شیری رحمٰن کی جانب سے ایک عالمی ‘Loss and Damage fund’ کے قیام کے لیے کی گئی کامیاب اور متاثر کن کاوشیں ہیں۔ یہ ماحولیاتی انصاف کے حصول کی جانب ایک ٹھوس قدم ہے۔ 2022 کے مون سون کے موسم نے پاکستانی حکام کی جانب سے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیاریوں کی کمی اور موسمیاتی موافقت کو ترجیح نہ دیے جانے کو بھی بے نقاب کر دیا۔ پاکستان کے حکمران طبقوں میں غریبوں کے لئے پائی جانے والی بے اعتنائی بھی ایک مرتبہ پھر سے محسوس کی گئی کہ جوہری ہتھیار رکھنے والا ایک بڑا ملک منصوبہ بندی کے ٹوٹے پھوٹے نظام کا حامل ہے، یہاں نہ مقامی حکومتیں ہیں اور نہ ہی غریبوں کے لیے حفاظتی اقدامات اٹھائے جائے ہیں۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ عوامی غیض و غضب اب تک کسی عوامی بغاوت میں تبدیل نہیں ہو سکا۔ سیاسی اشرافیہ بھی اس قدر بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی سے بے پرواہ نظر آئی کیونکہ ایک جانب ملک کا بڑا حصہ سیلاب میں ڈوب چکا تھا اور دوسری جانب عمران خان بدستور اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوانے کے لئے پوری ملک میں شدومد کے ساتھ جلسے کرنے میں مشغول تھے۔
سال 2023 میں بہتری کے امکانات اور بھی نحیف ہیں۔ پاکستانی طالبان، ان کے اتحادیوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے باعث ریاست ایک دلدل میں پھنستی چلی جا رہی ہے۔ آنے والے سال میں ریاست کی رٹ، قانون کی حکمرانی اور قومی وسائل پر بہت زیادہ دباؤ پڑنے والا ہے۔ 2023 میں پاکستان کو وسیع النظر قیادت، فعال پارلیمنٹ، پالیسیوں کی ساخت میں تبدیلی اور اشرافیہ کی جانب سے کسی حد تک قربانی دینے کی ضرورت ہو گی تاکہ سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے ایک دوسرے سے جڑے مسائل سے نمٹا جا سکے۔
افسوس کی بات ہے کہ استحکام کے لیے ان میں سے کوئی بھی تقاضا پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ یہی وہ بدترین المیہ ہے جس سے پاکستانی 2023 میں نبردآزما ہوں گے۔
رضا رومی کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے 'نیا دور' اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا گیا ہے۔
مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔