عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت صرف ایمپائر کے پاس، اشارہ کرتا ہے اور فیصلہ ہوجاتا ہے

عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت صرف ایمپائر کے پاس، اشارہ کرتا ہے اور فیصلہ ہوجاتا ہے
سینئر صحافی مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ سول حکومت کے پاس عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی بہت کم صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ جادوئی طاقت صرف ایمپائر کے پاس ہوتی ہے۔ وہ اشارہ کرتا ہے اور فیصلہ ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرریوں میں سینیورٹی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پسند ناپسند کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ لیکن دوسری جانب ہائیکورٹس ہمیں اتنا ہی جارحانہ انداز اختیار کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں کیونکہ بہت سے ججز عدالت عظمیٰ سے خوش بھی نہیں ہیں۔

یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ میر شکیل الرحمان اور صاف پانی کیس کے فیصلوں پر ان کا کہنا تھا کہ ایمپائر عدالتوں میں دائر مقدمات پر اثر انداز نہیں ہو رہا۔ اگر وہ اثر انداز ہوتا ہے تو بری ہونا تو دور کی بات ضمانتیں تک نہیں ملتیں۔

مزمل سہروردی نے راوی ریور پراجیکٹ پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر لاہور ہائیکورٹ نے 220 صفحوں کے فیصلے میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( روڈا) کو اڑایا ہے تو سپریم کورٹ نے کیوں اسے معطل کیا؟ اس کا مطلب صاف ہے کہ دونوں معزز عدالتوں میں ہم آہنگی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یوسف رضا گیلانی کا استعفیٰ منظور ہوگا کیونکہ اگر انہوں نے کچھ کیا بھی ہے تو اپنی پارٹی کی ہدایات پر کیا۔ صرف وہی نہیں بلکہ کئی اور اراکین بھی جمعے کے روز ایوان سے غائب تھے۔ سٹیٹ بینک ترمیمی بل کا پاس ہونا ریاست کی ضرورت تھا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان ڈیفالٹ ہو جاتا۔ اس لئے ریاستی اداروں نے ہی اسے پاس کروانے میں سہولت کاری کیلئے کام کیا۔ اس بل کو پاس کروانے کیلئے تمام اپوزیشن جماعتوں کو آن بورڈ لیا گیا تھا۔

نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک ترمیمی بل نے بالاخر پاس ہونا تھا۔ اگر یہ پاس نہ ہوتا تو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے مزید سختیاں پاکستان کو درپیش آنی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی نے ایوان بالا میں کی گئی اپنی جذباتی تقریر میں استعفے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اسے منظور نہیں کیا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ سٹیٹ بینک ترمیمی بل کے معاملے میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو آن بورڈ لیا گیا تھا کیونکہ سب کو بتایا جاتا تو شاید بہت سے لوگ ایوان میں آتے ہی نہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ انہوں نے اپنا استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کو نہیں بلکہ پارٹی لیڈرشپ کو دیا ہے جو کسی صورت قبول نہیں ہوگا۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت یوسف رضا گیلانی کو پابند کرتی کہ انھیں ہر صورت سینیٹ اجلاس میں موجود رہنا ہے تو وہ ایسا ہی کرتے کیونکہ وہ اپنی جماعت سے بہت مخلص ہیں اور اس کا ثبوت انہوں نے بطور وزیراعظم اپنا استعفیٰ پیش کرکے دے دیا تھا۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ایک سیاستدان سے سیاست ہی کی توقع رکھی جاتی ہے، غیر سیاسی عمل کی نہیں۔ یوسف رضا گیلانی بھی ایک سیاستدان ہیں۔ اگر استعفیٰ ہی دینا ہوتا تو وہ پارٹی لیڈرشپ کی مرضی کے بغیر نہیں دیتے۔ انہوں نے اپنے استعفے کا اعلان سینیٹ کے فلور پر کیا۔ اس اثناء میں باقی جماعتوں کی لیڈرشپ بھی آن بورڈ ہے تو انہوں نے یوسف رضا گیلانی کیساتھ اظہار یکجہتی بھی کر لیا۔

آمنہ قادر کا کہنا تھا کہ راوی ریور پراجیکٹ کا فیصلہ ابھی تک عدالت کی جانب سے جاری نہیں کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے جن میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس مظاہر نقوی شامنل ہیں نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی ٹیم جب پیش ہوئی تو معزز عدالت عظمیٰ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ بغیر تیاری کے آئے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں بہت تضاد نظر آ رہا ہے۔ عدالتیں جب فیصلہ معطل کرتی ہیں تو انھیں اس کی وجوہات بتانا پڑتی ہیں لیکن سپریم کورٹ نے صرف سوالات اٹھائے ہیں۔