ملک میں اعلیٰ تعلیم کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے شدید مخالفت کے باوجود وفاقی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے قیام کے آرڈیننس 2002 میں ترامیم لانے کا فیصلہ کرلیا۔ ایچ ای سی آرڈیننس 2002 میں مجوزہ ترامیم کے بعد اس کی خودمختاری ختم ہوجائے گی۔
باوثوق ذرائع کے مطابق ترمیمی بل کے مسودے کو حتمی شکل دینے کے لئے کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی نے وفاقی وزارت قانون و پارلیمانی امور سے اس حوالے سے اپنی تجاویز بھی مانگ لی ہیں۔ اس کے بعد اسے کابینہ اور بعد ازاں قومی اسمبلی کے سامنے رکھا جائے گا تاکہ یہ باقاعدہ طور پر قانون بن جائے۔
ذرائع نے مزید دعوی کیا ہے کہ وائس چانسلرز کمیٹی اور ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ یونیورسٹیز پاکستان پہلے ہی یہ کہہ کر اس اقدام کی مذمت کر چکے ہیں کہ مذکورہ ترامیم نہ صرف ادارے کے خود مختارانہ کردار کو محدود کرتی ہیں بلکہ مجوزہ ترامیم وفاق کے بنیادی اصولوں کی بھی صریحاً نفی کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ ایچ ای سی کے قیام کا بنیادی مقصد ہی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے معاملات کو بہتر اسلوب پر چلانے کے لیے ریگولیٹری باڈی کے طور پر آزادانہ تعلیمی ماحول کی فراہمی اور اعلی تعلیم کو فروغ دینا تھا۔ 1973 کے رولز آف بزنس کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کی حیثیت وزارت تعلیم سے وابستہ ایک ادارے کی تھی۔ تاہم اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی غرض سے قائم کی جانے والی ٹاسک فورس نے ایچ ای سی آرڈیننس برائے 2002 کا مسودہ تیار کیا تھا اور سفارش کی تھی کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو خود مختارانہ طریقے سے کام کرنے دیا جائے۔ اسے وزارت کے ذریعے کنٹرول نہ کیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو وفاقی وزارت کا درجہ دیتے ہوئے اسے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ بنایا گیا اور ہائر ایجوکمشن کے معاملات بہتر اسلوب پر چلانے کے لئے تمام صوبوں اور وفاق سے ایک اعلی سطحی ادارہ تشکیل دیا گیا جو مشاورت کے ساتھ چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ اس اعلی سطحی فورم میں صوبہ جات سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ماہرین اور اعلی سرکاری و انتظامی عہدیداران کو بھی نمائندگی دی گئی۔ یہ طے کیا گیا کہ وزیراعظم چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کا تقرر کریں گے جبکہ ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تقرری اور دیگر اعلی عہدوں پر تعیناتیوں کا اختیار 18 رکنی اعلی سطحی باڈی کے ذمے ہوگا۔ چیئرمین اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی مدت ملازمت چار سال مقرر کی گئی۔
بعد ازاں اپریل 2021 میں تحریک انصاف کی حکومت نے ایچ ای سی آرڈیننس، 2002 میں دو ترامیم کیں۔ ایک کا مقصد چیئرمین کو حکومت کی صوابدید پر برخاست کرنا جبکہ دوسری ترمیم کے ذریعے اس کے تقرر کی مدت چار سال سے کم کر کے دو سال کرنا تھا۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے رہنماؤں نے اس وقت وفاقی حکومت کے اس صوابدیدی فیصلے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے ایچ ای سی آرڈیننس 2002 کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق ستم ظریفی یہ ہے کہ ترمیم شدہ ایچ ای سی آرڈیننس 2022 ناصرف 2021 میں کی گئی کی تحریک انصاف حکومت کی ترامیم کو برقرار رکھتا ہے بلکہ اس کی خودمختاری ختم کر کے براہ راست وفاقی وزارت تعلیم کے ماتحت کر دینے کی تجویز پیش کرتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس ترمیم کے بعد وزیراعظم ہائر ایجوکیشن کمیشن کی کنٹرولنگ اتھارٹی ہوں گے اور وہ اپنے یہ اختیارات وفاقی وزیر تعلیم کو منتقلی کر سکیں گے۔ اس ترمیم کے مطابق مجوزہ ترمیم کے ذریعے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اعلی سطحی باڈی میں سے صوبوں کی نمائندگی ختم کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے جس کے بعد اس کی تعداد 18 سے کم کر کے 10 کر دی جائے گی جس سے صوبوں میں اعلی تعلیم سے متعلق تمام فیصلوں کا اختیار براہ راست وفاقی حکومت کو یکطرفہ طور پر حاصل ہو جائے گا۔ چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنیاد پر وفاقی حکومت میں براہ راست وزیراعظم یا وفاقی وزیر تعلیم انہیں کسی بھی وقت عہدے سے برخواست کر سکتے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کمیشن کے ارکان کا تعین چار سال اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تقرری بھی اعلی اختیاراتی فورم کے بجائے خود ہی کر سکے گی۔ مجوزہ ترامیم میں چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن و اراکین کی توسیع کے امکان کا بھی ذکر نہیں۔
کمیشن میں ترامیم کے نتیجے میں صوبائی نمائندگی کا خاتمہ اپریل 2021 میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں حاصل کردہ واحد ریگولیٹری اتھارٹی کے طور پر اس کی قومی اتفاق رائے والے ادارے کی حیثیت کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔
ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کی انتظامیہ، وائس چانسلرز کمیٹی اور نجی جامعات کی ایسوسی ایشن میں بھی حکومت کے اس فیصلے پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ اس تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، وائس چانسلرز کمیٹی اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کی ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ کوئی بھی قانون اسٹیک ہولڈرز بشمول صوبائی حکومتوں، سرکاری اور نجی شعبے کے اعلیٰ تعلیمی اداروں، ایچ ای سی اور اس کے ملازمین سے مشاورت کے بغیر منظور نہ کیا جائے جائے۔