جبری طور پر گمشدہ افراد میں سے 2002 لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں، کمیشن

 جبری طور پر گمشدہ افراد میں سے 2002 لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں، کمیشن
اسلام آباد:  جبری گمشدگیوں کے مقدمات کے لئے قائم کئے گئے کمیشن سے نیا دور میڈیا کو موصول ہونے والے دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ  گزشتہ آٹھ سالوں میں اپنے گھروں کو باحفاظت لوٹنے والے افراد کی تعداد  2002 ہے جو اپنے گھروں کو باحفاظت لوٹ آئے ہیں جن میں 639 افراد کا تعلق ملک میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے، 640 افراد کا تعلق سندھ سے، 396 افراد کا تعلق خیبرپختونخوا سے، 159افراد کا تعلق بلوچستان سے، 119افراد کا تعلق وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے، 40 افراد کا تعلق سابقہ فاٹا سے، 09 افراد کا تعلق آزاد جموں اینڈ کشمیر سے ہے۔

کمیشن سے حاصل کی گئی دستاویزات کے مطابق سال کے پہلے مہینے میں چار گمشدہ افراد کی لاشیں ملی ہیں جبکہ اس کے ساتھ  ساتھ   گمشدہ افراد کے پچاس خاندانوں نے کمیشن کو نئی رپورٹس بھی درج کرائی ہیں جس کے بعد ملک میں گمشدہ افراد کی مجموعی تعداد 2122 ہو گئی ہے۔

کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں واضح کیا ہے کہ کمیشن نے 69افراد کو گمشدہ افراد کی فہرست سے نکال دیا کیونکہ ان کا تعلق گمشدہ افراد سے نہیں تھا۔ کمیشن نے اپنے  اعداد و شمار میں واضح کیا ہے کہ کمیشن نے ملک کے مختلف شہروں میں 675 عدالتی کاروائیاں کی۔کمیشن نے ماہ جنوری کے اعداد و شمار میں واضح کیا ہے کہ کمیشن نے اسی مہینے 36 افراد کا سراغ لگایا جن میں 25 افراد اپنے گھروں کو واپس آئے جبکہ چار گمشدہ افراد کی نعشیں ملی، چار افراد حراستی مراکز میں قید ہیں۔ تین افراد جیلوں میں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ 33 کیسز کو خارج کیا گیا ہے جو یا تو گمشدہ افراد کی فہرست میں نہیں آ رہے تھے یا ان کے کوائف اور عزیز و اقارب کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہوسکی۔

کمیشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کمیشن نے ملک کے مختلف شہروں میں 675 مقدمات درج کروائے جن میں  253 اسلام آباد میں، 24 لاہور میں، 83 پشاور میں، 85 کوئٹہ میں جبکہ 230 کراچی میں کروائے۔

کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں حراستی مراکز میں قیدیوں کی تعداد کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس وقت ملک کے مختلف شہروں کے 814 افراد ان حراستی مراکز میں قید ہے جن میں 79 قیدیوں کا تعلق پنجاب سے، 33 سندھ سے، 616 خیبر پختون خوا سے، 17اسلام آباد سے، 67 سابقہ فاٹا سے، ایک گلگلت بلتستان سے ہے جبکہ امن و امان کی مخدوش صورتحال اور گمشدہ افراد کے حوالے سے مشہور صوبہ بلوچستان کا کوئی باشندہ ان حراستی مراکز میں قید نہیں۔

کمیشن نے گمشدہ افراد کی نعشیں ملنے کے حوالے سے اپنے اعداد و شمار میں واضح کیا ہے کہ گزشتہ نو سالوں میں ملک بھر سے 209 افراد کی لاشیں ملی ہیں جن میں 63 کا تعلق پنجاب سے، 53افراد کا صوبہ سندھ سے، 47خیبر پختون خوا سے، 28بلوچستان سے، 07 اسلام آباد سے، 09سابقہ فاٹا سے، 02  ازاد جموں اینڈ کشمیر کے جبکہ گلگت بلتستان کا کوئی بھی باشندہ شامل نہیں۔
۔
کمیشن نے جبری گمشدگیوں کے بعد ملک کے مختلف جیلوں میں قید شہریوں کے اعداد و شمار کا زکر کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ ملک کے مختلف جیلوں میں اس وقت 504افراد قید ہے جن میں 139 افراد کا تعلق پنجاب سے، 235 کا تعلق سندھ سے، 64کا تعلق خیبر پختون خوا سے، 06کا تعلق بلوچستان سے، 26 افراد کا تعلق وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے، 23 کا تعلق سابقہ فاٹا سے، 11 کا تعلق ازاد جموں اینڈ کشمیر سے جبکہ گلگت بلتستان کا بھی باشندہ اس وقت قید میں نہیں۔

کمیشن کو چار افراد کے حوالے سے سرکاری اہلکاروں نے بتایا کہ ان پر دہشتگردی کے مختلف مقدمات ہیں اور اس وقت وہ حراستی مراکز میں قید ہے۔
کمیشن نے تیمور خان ولد لطیف خان سکنہ خیبر ایجنسی پر سرکاری اہلکاروں سے جواب طلب کیا جس پر انھوں نے جواب دیا کہ وہ فوج کے حراستی مرکز لکی مروت میں قید ہیں اور خاندان والوں کی دو بار ان سے ملاقات ہوچکی ہے۔

کمیشن نے پانچ بلوچ نوجوانوں کے مقدمات بھی اُٹھائے جن کی جبری گمشدگی کی رپورٹ درج ہوئی تھی۔ جن میں احمد نصیر ولد سواتی سکنہ اواران بلوچستان، انیس سکنہ پنجگور بلوچستان، عقیل احمد سکنہ کیچ بلوچستان، فیض محمد کیچ بلوچستان،  نور اللہ سکنہ کوئٹہ، رمضان مینگل سکنہ خضدار بلوچستان، داوٗد حسین سکنہ مستونگ بلوچستان جن پر کمیشن کو بتایا گیا کہ یہ تمام افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں اور ان میں دو کیسز ایسے تھے جوجبری گمشدگیوں میں نہیں آتے کیونکہ یا تو وہ ذاتی رنجش کی وجہ سے گھر چھوڑ چکے تھے یا پھر اغوا برائے تاوان کے لئے اٹھائے گئے تھے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔