اکتوبر 2020: ایک ماہ میں 45 افراد جبری طور پر گمشدہ کر دیئے گئے،کمیشن رپورٹ

اکتوبر 2020: ایک ماہ میں 45 افراد جبری طور پر گمشدہ کر دیئے گئے،کمیشن رپورٹ
ملک میں جبری  گمشدگیوں کا سراغ لگانے والے کمیشن نے ماہ اکتوبر کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران جبری طور پر گمشدہ   پینتالیس مزید کیسز درج ہوئے جس سے  جبری طور پر گمشدہ  افراد کی تعداد 2083 ہوگئی ۔ واضح رہے کہ 2083 گمشدہ طور پر وہ افراد ہے جن کے خاندان والوں نے کمیشن کے ساتھ رپورٹ درج کئے ہیں جبکہ مختلف اداروں کے اعداد و شمار اس تعداد سے کہی زیادہ ہے۔

کمیشن نے اعداد و شمار میں کہا ہے کہ کمیشن نے گزشتہ مہینے 24 لوگوں کا سراغ لگا لیا جن کے خاندان والوں نے کمیشن کے ساتھ جبری گمشدگی کے رپورٹس درج کئے تھے ۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ سراغ لگائے گئے 24 افراد میں سے 16 افراد اپنے گھروں کو واپس اگئے ہیں جبکہ چھ گمشدہ افراد فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید ہے۔ کمیشن نے مزید کہا ہے کہ دو لوگ جن کا کمیشن نے سراغ لگایا ہے اس وقت ملک کے مختلف جیلوں میں قید ہے جبکہ چھ کیسز کو خارج کیا گیا کیونکہ وہ جبری گمشدگیوں کے زمر ے میں نہیں آتے تھے۔

کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں 848 لوگ قید ہے جن میں زیادہ تعداد خیبر پختونخوا کے شہریوں کی ہے جبکہ پنجاب اور اسلام آباد کے بھی کئی شہری فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید ہے۔

کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں کہا ہے کہ ملک میں گزشتہ 9 سالوں میں 216 افراد کی نعشیں ملی ہے جن میں سب سے زیادہ تعداد 66 پنجاب سے ہے۔

کمیشن نے سوات سے تعلق رکھنے والے مقامی شہری عنایت الرحمان کا کیس بھی اُٗٹھایا جس پر کمیشن کو خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں  نے بتایا کہ عنایت الرحمان اس وقت فوج کے زیر نگرانی حراستی مرکز فیتوم سوات میں سول پاور ریگولیشن قانون کے تخت قید ہے۔

لیاری سے تعلق رکھنے والے گمشدہ بلوچ نواجوان عبدالرزاق بلوچ کی جبری گمشدگی کیس کو بھی اُٹھایا گیا جس پر کمیشن کو ان کی بہن نے بتایا کہ عبدالرزاق بلوچ کی تشدد زدہ نعش ملی ہے جس کے بعد کمیشن نے اس کیس کو بھی بند کردیا۔

کمیشن نے  رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے شہری رفیق احمد  اور عبدالخالق کے جبری گمشدگیوں کے کیسزبھی اُٹھائے جس پر کمیشن کو انسداد ہشتگردی  شیخوپورا کے انسپکٹر صفدر پرویز نےبتایا کہ رفیق احمد  اور عبدالخالق ایک پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے جس پر کمیشن نے اس کیس کو مستقل طور پر بند کیا۔

کمیشن نے خیبر پختون خوا کے ضلع دیر سے تعلق سے رکھنے والے فیروز شاہ کا کیس بھی اُٹھایا جس پر ایم آئی کے حکام نے کمیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت فوج کے زیر نگرانی حراستی مرکز فضاگٹ سوات میں قید ہے۔

کمیشن نے بنوں سے تعلق رکھنے والے شہزاد خان کا کیس بھی اُٹھایا جس پر کمیشن کو خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے بتایا کہ وہ اس وقت فوج کے زیر نگرانی حراستی مرکز  لکی مروت میں قید ہے  ۔

کمیشن نے باجوڑ سے تعلق رکھنے والے خان زمان کا کیس بھی اُٹھایا جس پر کمیشن کو خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے بتایا کہ وہ اس وقت فوج کے زیر حراست ہے اور حراستی مرکز لکی مروت میں قید ہے۔

 

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔