Get Alerts

'تمام فوجی اداروں کے اکاؤنٹس سنگل نینشل اکاؤنٹ میں شامل کرنا ناگزیر ہو چکا'

'تمام فوجی اداروں کے اکاؤنٹس سنگل نینشل اکاؤنٹ میں شامل کرنا ناگزیر ہو چکا'
دو سے تین سال میں چند فوجی اداروں کے اکاؤنٹس کو ایک ہی سنگل نیشنل اکاؤنٹ میں شامل کرنا ہو گا۔ یہ آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصہ ہے اور وہ اس پہ پاکستان کے ساتھ بات کریں گے۔ سنگل اکاؤنٹ والی بات پاکستان کے لیے فائدہ مند ہو گی، اس پہ عمل درآمد کے لیے پاکستان نے آئی ایم ایف سے 2 سے 3 سال کا وقت لیا ہوا ہے۔ وزارت دفاع سمیت دیگر وزارتوں کے اخراجات میں کمی کرنے کی ضرورت ہو گی۔ سٹیٹس کو پہ اب یہ ملک نہیں چل سکتا لہٰذا سب کو ہی قربانی دینا ہو گی۔ یہ کہنا ہے معاشی تجزیہ کار مہتاب حیدر کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے مہتاب حیدر نے کہا کہ پاکستان کو اخراجات کم کرنے کے ساتھ ساتھ اضافی ٹیکس بھی لگانے ہوں گے، وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ان معاملات کو بل کے ذریعے سے پارلیمنٹ میں لایا جائے گا۔ بجلی اور گیس سیکٹر کے گردشی قرضوں کو کم کرنے کے لیے نرخوں کو بڑھایا جائے گا۔ پٹرول پر لیویز بڑھانے کا مطالبہ آیا تو یہ فیصلہ ڈار صاحب کے لیے مشکل ہو گا۔ اس وقت پاکستان کے اثاثے 3.6 ارب ڈالر ہیں اور اگلے 5 ماہ کے لیے 10 ارب ڈالر چاہئیں جن میں سے 4 سے 5 ارب ڈالر کا خسارہ ہو گا۔

کالم نگار مزمل سہروردی نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے بارے میں اتفاق ہو گیا ہے، اس سلسلے میں قومی اسمبلی سے ایک متفقہ قراداد کے پاس ہونے کا امکان ہے۔ سینیٹ کو ملا کر پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بھی بلایا جا سکتا ہے۔ جن دہشت گردوں کو سزائے موت ہوئی تھی ان کو چھوڑنے کے حوالے سے بھی حکومت نے بات کی ہے۔ جن لوگوں نے یہ دہشت گرد چھوڑے تھے ان کا بھی احتساب ہونا چاہئیے۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ رانا ثناء اللہ نے آج واضح الفاظ میں کہا ہے کہ دہشت گردوں کو چھوڑنے والی پالیسی غلط تھی جس کی وجہ سے دہشت گردی کے حالیہ واقعات ہو رہے ہیں۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد نواز شریف کی سربراہی میں ایک آل پارٹیز کانفرنس ہوئی تھی جس میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ فوجی طاقت کے ذریعے سے دہشت گرد تو ختم ہو سکتے ہیں مگر دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے بڑے پروگرام کی ضرورت ہے۔ پولیس، انٹیلی جنس اور کمیونٹی کے کردار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

قانون دان احمد پنسوٹہ نے کہا کہ 9 فروری کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان کا ممکنہ جواب ہو گا کہ یہ کوئی کرپشن کا کیس نہیں ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف الیکشن کمیشن کو نہیں مانتے۔ عمران خان کی کوشش ہو گی کہ ان کیسز کو التوا کا شکار کیا جائے۔ پاکستان میں مختلف عدالتوں سے ریلیف لینے کا پرانا رواج ہے، لوگ کوشش کرتے ہیں کہ جہاں سے بھی ریلیف مل جائے لے لینا چاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے وزارت داخلہ اور سکول کے نصاب کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، فوجی آپریشن اس کے بعد کیا جائے۔ آپریشن کے لیے سیاسی جماعتوں میں قومی اتفاق کی بہت ضرورت ہے، اتفاق نہیں ہو گا تو فوج کو کارروائی کرنے میں بھی مسئلہ ہو گا۔

ماہر قانون رضا رحمٰن نے کہا کہ محسن نقوی والی پٹیشن پراعتراضات لگے ہیں کہ اس میں مناسب زبان استعمال نہیں کی گئی جو اب درستگی کے لیے واپس جائے گی۔ اٹھارھویں ترمیم کے بعد 2013 اور 2018 میں بھی یہ عمل ہو چکا ہے، اب اس پر اعتراض کا کوئی جواز نہیں ہے۔ قانونی اور آئینی بنیادوں پر اس پٹیشن کو خارج ہو جانا چاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ کیس الیکشن کمیشن نے بھیجا تھا، اس میں عمران خان کی گرفتاری نہیں ہو گی اور عبوری ضمانت ہو جائے گی۔ عمران خان کے خلاف جو بھی کیسز ہیں وہ سارے قابل ضمانت ہیں۔ اگر ان پر جرم ثابت ہوتا ہے تو اس صورت میں وہ گرفتار ہو سکتے ہیں۔ قانون کے مطابق الیکشن 90 دن کے اندر کروانے ہوں گے، حکومت کوئی نظریہ ضرورت ڈھونڈ سکتی ہے کہ الیکشن میں تاخیر کی جائے۔ سکیورٹی کی صورت حال بھی بروقت انتخابات کروانے میں آڑے آ سکتی ہے۔

میزبان رضا رومی نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے افغان پالیسی کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔