پاکستان میں علاج سے پیشگی انکار بارے قانون سازی ہونی چاہیے

سب سے پہلے امریکہ میں قانون کی تبدیلی سے شہریوں کو اپنے متعلق یہ فیصلہ کرنے کا حق تفویض کیا گیا اور پھر یہ سلسلہ دیگر ممالک میں پھیلتا چلا گیا۔ اب یہ معمول کی بات ہو گئی ہے۔ 2013 کے اعداد و شمار کے مطابق انگلستان اور ویلز کے اسپتالوں میں ہونے والی پونے 3 لاکھ اموات میں صرف 20 ہزار افراد کا سی پی آر کیا گیا۔

پاکستان میں علاج سے پیشگی انکار بارے قانون سازی ہونی چاہیے

مس فردوس جو پرائمری سکول میں ہماری ٹیچر رہ چکی تھیں، ان کی موت کی افسوس ناک خبر ملی۔ ان کے بچوں سے تعزیت کے دوران پتہ چلا کہ پیٹ کا درد اور مستقل قبض ان کی موت کے باعث بنے۔ اپنی 15 روزہ بیماری میں وہ چار مختلف اسپتال لے جائی گئیں۔ ان اسپتالوں کے نام مختلف ہیں اور کچھ سے گمان گزرتا ہے کہ جیسے وہ خیراتی یا سرکاری شفا خانے ہوں لیکن مس فردوس اور ان کے سفید پوش گھرانے کے لئے یہ سب پرائیویٹ ادارے تھے جو مارکیٹ فورسز کے تحت کام کرتے ہیں۔ ان میں ملازم ڈاکٹروں اور عملے کی تنخواہیں اور اوقات کار کا تعین بھی بازار کے حقائق ہی کرتے ہیں۔ مس فردوس اتنی ہی صحت مند تھیں جتنی ایک 88 سالہ پاکستانی خاتون ہو سکتی ہیں۔ ان کی دونوں آنکھوں میں موتیا کے آپریشن کرائے جا چکے تھے۔ وہ گذشتہ 20 سال سے مصنوعی بتیسی استعمال کرتی تھیں۔ شوہر کی وفات کے بعد انہوں نے گھر سے نکلنا بند کر دیا تھا۔ ان کا دل کمزور ہو گیا تھا۔ دو سال ہوئے بتایا گیا تھا کہ 25 فیصد کام کرتا ہے۔ حالیہ بیماری میں گردے بھی ساتھ چھوڑ گئے۔

پہلے اسپتال میں مس فردوس کے بازو میں ڈرپ، ناک میں غذا کی نلکی اور مثانے میں پیشاب کے لئے کیتھیٹر لگایا گیا جو انہوں نے دوسرے دن کھینچ کر نکال دیے اور اعلان کر دیا کہ وہ موت کے ساتھ گھر پر ملاقات کرنا چاہیں گی۔ اس دن ان کے ہاتھ پاؤں بستر سے باندھے بھی گئے، پھر یہ کہہ کر ڈسچارج کر دیا گیا کہ انہیں آپریشن اور انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑ سکتی ہے جو وہاں دستیاب نہیں۔ 9 جنوری کو ان کے بیٹے بہانہ بنا کر انہیں سٹیڈیم روڈ کے قریب بنے بڑے اسپتال میں لے گئے۔ ابھی ڈاکٹر ایمرجنسی میں معائنہ کر رہے تھے کہ مس فردوس کا سانس اکھڑنے لگا اور نبضیں ڈوب گئیں۔ 'انہیں فوراً وینٹی لیٹر پر ڈالنا ہوگا۔ ابھی ہاں یا ناں میں جواب دیں'، کہیں سے آواز آئی۔ پھر مس فردوس کو وینٹی لیٹر کے سپرد کر دیا گیا۔ ایک بہت تیز انجیکشن گردن میں ڈالے گئے نلکے سے جسم میں مسلسل انڈیلا گیا تو بلڈ پریشر کچھ کچھ سنبھلا۔ گُردوں کی ناکامی کی وجہ سے 'کنٹراسٹ' نہیں دے سکتے تھے اس لئے سی ٹی سکین ممکن نہ تھا لہٰذا سرجن نے شق البطن یعنی لیپراٹامی کر کے پیٹ میں جھانکا۔ وہاں عجیب منظر نظر آیا۔ آنتیں آپس میں گتھم گتھا ہو گئی تھیں۔ خون اور آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے آنت کا کافی حصہ مردہ ہو چکا تھا۔ سرجن نے بڑی صفائی سے ان بے کار حصوں کو تراش کر بقیہ آنتوں کی ترپائی کی اور پیٹ میں سوراخ کر کے آنت کا ایک حصہ باہر نکال دیا تا کہ مس فردوس کا فضلہ خارج ہو سکے۔ یہ آپریشن بہت کامیاب رہا جس کے بعد مس فردوس بے ہوشی کے عالم میں واپس آئی سی یو لے جائی گئیں لیکن ان کی حالت بگڑتی گئی۔ بلڈ پریشر اٹھنا تھا، نہ اٹھا۔ 15 جنوری کی شام وہ وینٹی لیٹر پر ہی موت سے ہم آغوش ہو گئیں۔

انتہائی نگہداشت کی طب اور جدید موت

موت کیا ہے؟ سانس بند ہو جانا، بلڈ پریشر غائب ہو جانا، دل کی دھڑکن رک جانا۔ لیکن 1949 سے مریضوں کو مصنوعی تنفس دیا جا سکتا ہے، 1960 میں دل کے پیس میکر آ گئے جو دھڑکن پیدا کرتے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بے ہنگم دل کو ازخود شاک بھی دیتے ہیں۔ ایسی ادویات ہیں جنہیں گردن یا ران میں بڑی سی ورید کے راستے مسلسل دے کر بلڈ پریشر بحال کیا جا سکتا ہے۔ 1970 میں دوا نور ایڈرینالن ایجاد کرنے والے کو طب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ آج تک یہی دوا دنیا کے ہر آئی سی یو میں مستعمل ہے۔ گردے فیل ہو جائیں تو ڈائلائسس کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ تمام افعال مریض کے لئے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اس کی ذاتی حدود میں دخل اندازی ہوتی ہے، اس کی خود مختاری بار بار سلب کی جاتی ہے۔ ہر ہر عمل کی پیچیدگیاں ہیں۔ وینٹی لیٹر پر ڈالنا آسان ہے لیکن اس سے گلوخلاصی اتنی سہل نہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ زندگی کی توسیع نہیں بلکہ موت کی طوالت ہے۔

سی پی آر اور ڈی این آر

دل کی ذمہ داری عشق لڑانا، سوچنا، بہادر یا بزدل بنانا اور مایوس ہو کر ٹوٹنا نہیں بلکہ خون کو جسم میں پمپ کرنا ہے۔ جب یہ اچانک اس کام میں ناکام ہو جائے تو اس کیفیت کو دل کی بندش (کارڈیئک اریسٹ) کہتے ہیں۔ ایسے میں بحالی جان ( سی پی آر) کی کوشش فوراً شروع کر دینا چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بنیادی لائف سپورٹ کے قواعد کی تربیت صرف طبی عملے کو ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی سے متعلق افراد حتیٰ کہ سکول کے بچوں کو بھی دی جاتی ہے۔ امریکی ہارٹ ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال ساڑھے 4 لاکھ امریکی کارڈیئک اریسٹ سے مر جاتے ہیں۔ ان میں سے ساڑھے 3 لاکھ افراد کا دل سپتال کے باہر بند ہوتا ہے اس لئے اس بابت عوامی آگاہی اور تربیت انمول ہے۔ بالخصوص پانی میں ڈوبنے، دل کی بے ربط دھڑکنوں اور دل کے دورے کے باعث ہونے والے کارڈیئک اریسٹ میں سی پی آر کے فوائد مسلمہ ہیں۔ لیکن جان بچانے والا یہ عمل بھی سنگین پیچیدگیوں سے خالی نہیں جن میں پسلیوں یا سینے کی ہڈی کا فریکچر، دل اور دیگر اندرونی اعضا کو ناقابل تلافی نقصان شامل ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

یہی وجہ ہے کہ اب بنیادی لائف سپورٹ کی تربیت کے ساتھ ہی ان مریضوں میں سی پی آر نہ کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے جو لاعلاج امراض کے شکار ہوں یا جن کی داستان حیات کے آخری باب لکھے جا رہے ہوں۔ انگلستان میں ایسے مریض بھی ملتے ہیں جن کے شناختی بریسلیٹ پر ڈو نوٹ ری سسیٹیٹ یا بحالی جان سے پرہیز کریں، لکھا ہوتا ہے لیکن ڈاکٹروں اور طبی عملے کا قانونی فرض ہے کہ مریض کے ریکارڈ میں تحریر طبی وصیت (ایڈوانس ڈائریکٹو) سے تصدیق کر لیں۔

علاج سے انکار کرنے کا پیشگی فیصلہ (زندگی میں وصیت)

1970 میں انتہائی نگہداشت اور سی پی آر کا شعور عام ہونے کے ساتھ ہی کچھ لوگ یہ وصیت کرنے لگے کہ دل بند ہونے یا شدید بیمار ہونے کی صورت میں انہیں کس حد تک علاج معالجہ فراہم کیا جائے۔ سب سے پہلے امریکہ میں قانون کی تبدیلی سے شہریوں کو اپنے متعلق یہ فیصلہ کرنے کا حق تفویض کیا گیا اور پھر یہ سلسلہ دیگر ممالک میں پھیلتا چلا گیا۔ اب یہ معمول کی بات ہو گئی ہے۔ 2013 کے اعداد و شمار کے مطابق انگلستان اور ویلز کے اسپتالوں میں ہونے والی پونے 3 لاکھ اموات میں صرف 20 ہزار افراد کا سی پی آر کیا گیا۔ اس سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ 90 فیصد کی ڈی این آر حیثیت کا پہلے سے تعین ہو چکا تھا۔

معالجے سے انکار کی وصیت کو سرسری انداز میں نہیں لیا جاتا بلکہ بنیادی انسانی حقوق کے قانون 1998 اور دماغی سالمیت کے ایکٹ 2005 کے تحت تجزیہ کر لیا جاتا ہے کہ مریض ڈپریشن یا کسی اور سبب سے تو ایسا فیصلہ نہیں کر رہا۔ کئی صورتوں میں معالج کے پاس حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ علم اور تجربے کی روشنی میں مریض کی خواہش کے برعکس عمل کرے۔

پاکستان میں قانون سازی کی ضرورت

ہم نے جب 30 سال قبل پروفیسر ٹیپو سلطان صاحب کی سرپرستی میں انیستھیسیا اور آئی سی یو کی تربیت کا آغاز کیا تو اس وقت صوبہ سندھ کے واحد سرکاری اور مفت آئی سی یو میں ڈی این آر کی اصطلاح رائج تھی لیکن اس کے لئے پروفیسر صاحب اور ان کے سینیئر معاونین فیصلہ کرتے تھے۔ اس مضمون کے لئے ہم نے کراچی کی سب سے بڑی، مہنگی اور مؤقر میڈیکل یونیورسٹی میں رابطہ کیا تو ہمیں یہی بتایا گیا کہ مریض کی 'کوڈنگ' کر دی جاتی ہے جس کے بعد علاج جاری رکھتے ہیں لیکن اس میں اضافہ یا سی پی آر سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کسی قانون سے اب تک محروم ہے۔

بھارت میں کئی عشروں سے کوشش جاری ہے کہ ایڈوانس ڈائریکٹو اور باعزت موت کے حوالے سے ایسا معتدل اور متوازن قانون بن سکے جو الم زدہ مریضوں کے مزید استحصال کی راہ ہموار نہ کرے۔ ہم وہاں چلنے والی ابحاث سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ پاکستانی اطبا کی مختلف تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ اس اہم لیکن نظر انداز شدہ مسئلے کی اہمیت اجاگر کریں۔