Get Alerts

ڈیرہ بگٹی میں بڑھتی خواتین نسل کشی اور اسکے اسباب

کم عمری کی شادی عام ہے، اور 13 سے 14 سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں، ان کم عمر لڑکیوں کو مناسب طبی سہولیات میسر نہیں ہوتیں، اور وہ مسلسل 6 سے 7 بچوں کو جنم دینے کے بعد جسمانی طور پر کمزور ہو جاتی ہیں، زچگی کے دن جب یہ خواتین کمزور جسم کے ساتھ بچے کو جنم دینے کی کوشش کرتی ہیں، تو اکثر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں،میر احمدان بگٹی کے دور میں زچہ و بچہ مرکز کے لیے 35 کروڑ روپے منظور کیے گئے تھے، لیکن وہ پیسہ کہاں خرچ ہوا، اس کا کچھ پتہ نہیں

 ڈیرہ بگٹی میں بڑھتی خواتین نسل کشی اور اسکے اسباب

2004 کے اعداد و شمار کے مطابق، ڈیرہ بگٹی سے ماہانہ 470 ارب روپے کی گیس نکل رہی تھی۔ اس کے بعد سے کئی نئے گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ حال ہی میں اوچ کے مقام پر 34 نئے گیس کے کنویں دریافت کیے گئے ہیں۔ یہ علاقہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے امیر ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے۔  

اگر اس علاقے کی سیاست پر نظر ڈالیں تو یہاں سے منتخب ہونے والے ایم پی اے اور ایم این اے ہمیشہ کسی نہ کسی اہم وزارت پر فائز رہے ہیں۔ ان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بڑی وزارتیں شامل ہیں۔ موجودہ حکومت میں، ڈیرہ بگٹی سے منتخب ایم پی اے میر سرفراز احمد بگٹی بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ہیں، جبکہ ایم این اے میاں خان بگٹی وفاقی سیکرٹری برائے پیٹرولیم کے عہدے پر فائز ہیں۔ لیکن اس تمام سیاسی اثر و رسوخ اور وسائل کی موجودگی کے باوجود، ڈیرہ بگٹی میں آج تک ایک زچہ و بچہ مرکز قائم نہیں کیا جا سکا۔ اس بنیادی سہولت کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہر ماہ 2 سے 3 خواتین اور ان کے نومولود بچے زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔  

میر احمدان بگٹی کے دور میں زچہ و بچہ مرکز کے لیے 35 کروڑ روپے منظور کیے گئے تھے، لیکن وہ پیسہ کہاں خرچ ہوا، اس کا کچھ پتہ نہیں۔  

ڈیرہ بگٹی میں رہائش پذیر بگٹی قبیلے میں خواتین کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، قبائلی نظام میں خواتین کو آدھا انسان سمجھا جاتا ہے۔ ان کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور تعلیم حاصل کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ کم عمری کی شادی عام ہے، اور 13 سے 14 سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔ ان کم عمر لڑکیوں کو مناسب طبی سہولیات میسر نہیں ہوتیں، اور وہ مسلسل 6 سے 7 بچوں کو جنم دینے کے بعد جسمانی طور پر کمزور ہو جاتی ہیں۔ زچگی کے دن جب یہ خواتین کمزور جسم کے ساتھ بچے کو جنم دینے کی کوشش کرتی ہیں، تو اکثر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ یہ نسل کشی کئی سالوں سے جاری ہے، اور حکومت اسے روکنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔  

حکومتی دعوؤں کے باوجود، زچہ و بچہ مراکز قائم کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی، جو ڈاکٹرز وہاں تعینات ہیں، وہ اکثر غیر حاضر رہتے ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، اس ماہ چار خواتین زچگی کے دوران انتقال کر چکی ہیں، اور گزشتہ سال مجموعی طور پر 30 خواتین موت کے منہ میں جا چکی ہیں۔  

قبائلی معاشرے میں خواتین کے حقوق پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ خواتین کو نیم انسان کا درجہ دیا جاتا ہے، ان کی پیدائش پر کوئی خوشی نہیں منائی جاتی، اور موت کو بھی معمولی سمجھا جاتا ہے۔  آج صبح  

زہد خان پیروزانی بگٹی کی اہلیہ  جو اپنی پہلی اولاد کو جنم  دیتی ہوئی، طبی امداد نہ ملنے کے باعث انتقال کر گئیں۔ یہ واقعہ ڈیرہ بگٹی کے اوچ گیس فیلڈ کے قریب پیش آیا، جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق، زچگی کے دوران پیچیدگیوں کے باوجود زہد کو اپنی بیوی کو   قریبی شہر تک لے جانے کا کوئی ذریعہ یا فوری طبی مدد دستیاب میسر نہیں آسکا۔ 

   ڈیرہ بگٹی کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر (DHQ) ہسپتال میں نہ تو کوئی مستقل لیڈی ڈاکٹر تعینات ہے اور نہ ہی زچگی کے لیے مخصوص وارڈ یا آلات موجود ہیں۔ ثقافتی حساسیت کے پیشِ نظر خواتین اکثر مرد ڈاکٹروں سے علاج کروانے سے گریز کرتی ہیں، جس کی وجہ سے زچگی کے دوران پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔

   ڈیرہ بگٹی کے دیہی علاقوں میں سڑکوں کی خراب حالت اور ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایمرجنسی کی صورت میں خواتین کو رحیم یار خان یا صادق آباد جیسے شہروں تک لے جانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔  

   خطے کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ خواتین میں تعلیم کی شرح انتہائی کم ہونے کی وجہ سے وہ زچگی سے پہلے اور بعد میں صحت کے حوالے سے آگاہی نہیں رکھتیں۔

   بلوچستان کے دیگر پسماندہ علاقوں کی طرح ڈیرہ بگٹی بھی ترقیاتی منصوبوں سے محروم ہے۔ اوچ گیس فیلڈ جیسے منافع بخش پراجیکٹس کے باوجود علاقے کی ترقی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔

پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح 186 فی 100,000زندہ پیدائش) پہلے ہی جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے، لیکن ڈیرہ بگٹی جیسے علاقوں میں یہ شرح اس سے کہیں بلند ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، 80% زچگی کی پیچیدگیوں کو پیشگی طبی اقدامات سے روکا جا سکتا ہے، لیکن بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو پاتا۔  

ہر سال سینکڑوں بچے یتیم ہورہے ہیں، جبکہ زندہ بچ جانے والی خواتین بھی خون کی کمی، انفیکشنز، یا دیگر مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔ موبائل ہیلتھ یونٹس، لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعیناتی، اور ایمبولینس سروسز کا بحالی کی ضرورت ہے

 زچہ بچہ سنٹرز کی تعمیر، لیڈی ڈاکٹرز کی رہائش کا بندوست  اور نرسنگ اسکولز کا قیام کی اس مسئلہ کو حل کرسکتے ہیں۔ دیہات کی سطح پر زچگی کی دوران کی دیکھ بھال اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں تعلیمی سیشنز کا ہونا بھی ضروری ہے ۔

عبدالغفار بگٹی کا تعلق بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی سے ہے۔