لاہور: حکومت کو تمام بچوں کے لئے آرٹیکل 25-اے کے تحت مفت اور لازمی تعلیم کے حق پر مبنی آئینی وعدے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وسیع اصلاحات کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے، ان خیالات کا اظہار ماہرین تعلیم نے آئی اے رحمان کو خراج تحسین پیش کر نےکے لئے ادارہ برائے سماجی انصاف کی جانب سے منعقدہ علم کانفرنس میں کیا۔
کانفرنس میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 25-اے، تعلیمی آزادی اور یکساں قومی نصاب جیسے موضوع بھی زیرِبحث لائے گیے۔ کانفرنس میں انسانی حقوق کے سینئر کارکنان، دانشوروں، ماہرین تعلیم، طلبہ اور سیکڑوں شرکا نے آن لائن شرکت کی۔
افتتاحی کلمات میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر ادارہ برائے سماجی انصاف پیٹر جیکب نے کہا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 25-اے مفت اور لازمی تعلیم بنیادی اور انسانی حقوق کے طور پرفراہم کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تعلیم کے فروغ کے لئے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ تاہم، سکولوں میں بچوں کا کم اندراج، ڈراپ آؤٹ ریٹ، اساتذہ کی تربیت کا فقدان، محدود بجٹ مختص کرنے سے لے کر آرٹیکل 22(1) کی خلاف ورزی اور وسیع اور جامع مشاورت کی عدم موجودگی تک بہت سے مسائل اب تک توجہ کے منتظرہیں۔
ماہر معاشیات اور محقق، ڈاکٹر قیصر بنگالی نے پاکستان میں تعلیمی پالیسی کی ترجیحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے دو امور پر توجہ دلائی۔ پہلا، انسانی ترقی اور تعلیم کے کے تناظر میں خواندگی، اندراج، صحت اور غیر مساوی معاشی طاقت کے ڈھانچے سے تعلیم کا رشتہ، دوسرا، متعدد تعلیمی منصوبوں اور پالیسیوں کی ناکامی کے محرکات۔ ڈاکٹر بنگالی نے زور دیا کے ہمیں ایک ہی طاقتور طبقے سے بار بار مساوی حقوق اور اصلاحات کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
ماہرِتعلیم ڈاکٹر بیلا رضا جمیل نے آرٹیکل 25-اے کی روشنی میں نئی تعلیمی پالیسی سے متعلق اظہارِخیال میں کہا کہ نئی پالیسی کے لئے آیئن میں دی گئی ترجیحات کے مطابق تعلیمی مسائل کے حل کے لئے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ آیئن حقیقی معنی میں بلا تفریق سب کو تعلیم کا حق فراہم کرتا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے لئے تجاویز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں تعلیمی معیار بہتر کرنے کے لئے شرح خواندگی میں اضافہ، اساتذہ کی تقرری اور تربیت اور تعلیم نسواں سمیت دیگر مسائل کے حل کے لئے وسائل مختص کرنا ہوں گے۔
معروف ماہر تعلیم اور محقق ڈاکٹرعبدالحمید نیئر نے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں آزادی اور اس سے جڑے محرکات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اس طرف اشارہ کیا کہ ایک حقیقی علمی کام اور تحقیق سوچنے اور اظہار رائے کی آزادی کے بغیر ناقابل تصور ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ضمیر فکر و اظہار کی آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہوگی۔“
محقق، ڈاکٹر عائشہ رزاق نے یکساں قومی نصاب کے تحت درسی کتب کی آئینی حیثیت کے بارے میں اپنا حالیہ تجزیہ پیش کیا جس میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ذریعے شائع شدہ یکساں قومی نصاب کے تحت بنائی گئی گریڈ 1 تا 5 کے لئے اردو، انگریزی، جنرل نالج، سوشل سٹڈیز، سائنس اور ریاضی کے لازمی مضامین کا تجزیہ شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کے ان کی تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ درسی کتب واضح طور اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب سے بچوں اور اساتذہ کے حقوق کی اور آیئن کے آرٹیکل 22(1) کی صریح خلاف ورزی کر رہی ہیں اور یکساں قومی نصاب کے تحت بنائی گئی ان درسی کتب کو ان کی موجودہ شکل میں استعمال کرنے سے معاشرے میں مذہبی عدم رواداری کو فروغ ملے گا۔
پروفیسرڈاکٹر تانیہ سعید نے تعلیم کے حصول کے لئے طلبہ کو درپیش مسائل اور تعلیمی معیارپر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے تحقیقی مطالعہ سے تجربات کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ لائحہ عمل سے طے کی گئی تعلیمی پالیسی اور اس کی تکمیل کے لئے مناسب اقدامات کیے بغیر تعلیمی میدان میں ترقی ناممکن ہے۔
معروف وکیل، ثاقب جیلانی نے کہا کہ آئینِ پاکستان میں مہیا کیا گیا آرٹیکل 25-اے ایک بنیادی حق ہے جس کے مطابق 5 سے 16 سال کے بچوں کو تعلیم مفت اور لازمی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آرٹیکل 25-اے میں طے کی گئی ترجیحات کو سمجھنے کے لئے ہمیں آرٹیکل 11، 19، 19اے اور آرٹیکل (1)22 کے تناظر میں دی گئی بلا تفریق اور معیاری تعلیم کی ہدایات بھی مدِنظر رکھنا ہوں گی۔ انہوں نےمزید کہا کہ وفاقی اور صوبائی تعلیمی محکموں کو آئین کے حقوق کی اہمیت اور ضروت کو سمجھنا چاہیے جس کی پاسداری کا حکم سپریم کورٹ آف پاکستان بھی متعدد فیصلوں میں دے چکی ہے۔
علم کانفرنس کے شرکا نے حکومت پر زور دیا کہ وہ مندرجہ ذیل مطالبات/سفارشات پر غور کریں:
- وفاقی اورصوبائی تعلیمی وزارتوں کو لازمی اور مفت تعلیم کے حصول کے لئے (8٪ جی ڈی پی) سمیت تمام ممکنہ وسائل اور صلاحیتوں کو وقف کرنا چاہیے۔
- سیکنڈری اور پیشہ ورانہ تعلیم تمام طلبہ کے لئے یقینی بنائی جائے اور آؤٹ آف سکول طلبہ کے لئے پروگرامز تشکیل دیے جائیں۔
- قومی تعلیمی پالیسی میں مذہب، صنف، فرقہ، زبان، نسل وغیرہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے بچنے کے بارے میں صوبائی تعلیمی بورڈز کے لئے مخصوص ہدایات جاری کی جائیں۔
- تعلیمی پالیسی میں مذہبی اور معاشرتی عدم رواداری اور نفرت انگیزی کی تعریف دی جائے تاکہ مصنفین اور اساتذہ اس کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات کر سکیں۔
- علم پر مبنی منظم معاشرے کی تشکیل اور ثقافت کو فروغ دینے کے لئے ہر سطح پر تعلیمی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔
- نصاب اور پالیسی میں ایک عملی اور جامعہ منصوبہ تشکیل دیا جانا چاہیے جس میں پالیسی پرعمل درآمد کی حکمتِ عملی، مختص اخراجات، سالانہ بجٹ کی ضروریات، اور سالانہ آڈٹ کے اہداف واضح کیے جائیں۔
- تعلیمی بورڈز اساتذہ کے تربیتی پروگرامز کے ذریعے تجزیے، تنقیدی سوچ، انسانی حقوق، معاشرتی انصاف اور امن کے فروغ کو یقینی بنائے تاکہ طلبہ کو معاشرتی ہم آہنگی، ثقافتی اور مذہبی تنوع جیسےموضوعات پر شعور دیا جا سکے۔
- سکولوں میں باقاعدگی سے حاضری اور ڈراپ آؤٹ ریٹ میں کمی کے لئے اقدامات کیے جائیں۔
- تقریب میں آئی اے رحمان صاحب کی زندگی اور جدوجہد پر مبنی ایک مختصر دستاویزی فلم بھی پیش کی گئی۔