بہاولپور میں واقع سرکاری اسلامیہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے گزشتہ 25 دنوں سے گورنر ہاؤس لاہور کے باہر احتجاجی کیمپ لگا رکھا ہے تاہم انتظامیہ یا گورنر پنجاب کی جانب سے انکی کوئی بات نہیں سنی جارہی اور نہ ہی ابھی تک کوئی حکومتی یا اپوزیشن کا نمائندہ ان کے پاس پہنچا ہے۔
طلبہ کا موقف ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے نہ صرف ان کا کوٹہ ختم کرکے فیسوں کی مد میں دی گئی رعایت واپس لے لی ہے بلکہ انہیں ہاسٹلوں سے بھی نکال دیا گیا ہے۔
احتجاج کرنے والے طلبہ نے جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے اساتذہ اور عملے پر تعصب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے نئے وی سی فاٹا کے طلبہ کی بات نہیں سنتے الٹا ان یونیورسٹی انتظامیہ نے نہ صرف ان کا کوٹہ ختم کرکے فیسوں کی مد میں دی گئی رعایت واپس لے لی ہے بلکہ انہیں ہاسٹلوں سے بھی نکال دیا گیا ہے۔
طلبہ کے مطابق فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد پنجاب کی جامعات میں ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی مخصوص نشتوں اور سکالر شپ میں رکاوٹیں تاحال برقرار ہیں۔ چند ماہ قبل ملتان کی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں زیر تعلیم سابق فاٹا کے طلبہ نے بھی انتظامیہ کی کارروائیوں کے خلاف ملتان سے لاہور تک پیدل مارچ کیا تھا۔
مال روڈ پر دیے گئے مذکورہ دھرنے کو ختم کرانے کے لیے گورنر پنجاب چوہدری سرور نے تمام جامعات میں کوٹہ اور سکالر شپ بحال کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا۔ اس احتجاج میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز بھی شریک ہوئیں تھیں اور حکومت سے ان طلبہ کا کوٹہ بحال کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔
تاہم اس کے باوجود پنجاب یونیورسٹی لاہور، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سابق فاٹا کے طلبہ کی مشکلات ختم نہ ہوسکیں۔
مسلم لیگ ن کی سابق حکومت نے 2015 میں پنجاب کی جامعات میں سابق فاٹا کے طلبہ کے لیے کوٹہ مختص کر کے سکالر شپ اور فیسوں میں رعایت دی تھی، لیکن طلبہ کے مطابق 2018 میں پی ٹی آئی حکومت کے دور میں جب سابق فاٹا کا علیحدہ تشخص ختم کرکے اس کا انضمام خیبر پختونخوا میں کیا گیا تو انہیں پنجاب کی یونیورسٹیوں میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اب انتظامیہ کوٹے اور فیسوں میں رعایت کی پالیسی پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہے۔
طلبہ کا کہنا ہے جب انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور انتظامیہ کے خلاف چند ماہ پہلے لاہور میں احتجاج کیا تو گورنر پنجاب نے 31 اکتوبر2020 کو نوٹیفکیشن جاری کیا کہ سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو دی گئی تعلیمی سہولیات بحال کی جائیں، لیکن اس کے باوجوود ہر شعبے میں چار سیٹوں کا کوٹہ ختم کردیا گیا اور مفت تعلیم کی سہولت واپس لے کر 50 فیصد فیس وصول کی گئی اور اب ہاسٹل سے بھی نکال دیا گیا ہے۔ جبکہ نئے آںے والے طلبہ کو بھی کوٹے کے مطابق سیٹوں پر داخلہ نہیں دیا جارہا۔
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ جب تک کے پی میں فاٹا کا انتظامی ڈھانچہ مکمل فعال نہیں ہوتا، پنجاب کی جامعات میں وہاں کے طلبہ کا کوٹہ ڈبل کر دیا جائے گا لیکن پہلے والا بھی ختم کیا جا رہا ہے۔
طلبہ کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ 25 دنوں سے یہاں بیٹھے ہیں اس دوران بارشیں بھی ہوئیں جس کے باعث فاٹا کے یہ طلبہ سڑکوں پہ بے یارو مددگار چھت ڈھونڈتے رہے مگرگورنر پنجاب یا ان کے عملے کا کوئی شخص طلبہ سے پوچھنے نہیں آیا۔
طلبہ نے کہنا کہ انہیں مجبوراً بھوک ہڑتال پر بیٹھنا پڑا ہے اور وہ تب تک بیٹھے رہیں گے جب تک گورنر اور انتظامیہ ان کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے اسکالرشپ کی بحالی کا تحریری آرڈر جاری نہ کریں۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے اور اگر اس ہڑتال کے باعث کسی بھی طالب علم کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار گورنر پنجاب، وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم عمران خان ہوں گے۔