حکومت نے تصدیق کردی ہے کہ وزیراعظم کے خلاف غیر ملکی سازش کے بارے میں اس کا الزام بیرون ملک ایک پاکستانی مشن سے موصول ہونے والے سفارتی کیبل (تار) پر مبنی تھا۔
اس صورتحال پر ڈان اخبار نے خصوصی رپورٹ شائع کی ہے، رپورٹ کے مطابق اتوار کو اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ ہے اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے جا رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے ابتدائی طور پر دھمکی آمیز خط کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں لیکن اس کے بعد ناقدین کی جانب سے اس کے دعوے پر شک کرنے کی وجہ سے تھوڑی تفصیلات دیں۔
حکومت نے ابتدائی طور پر اس خط کو چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ شیئر کرنے کی پیشکش کی لیکن بعد میں وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے ارکان کو خط کے مندرجات سے بھی آگاہ کیا۔
خفیہ دستاویزات کے افشا پر قانونی پابندی کے پیش نظر صحافیوں کے ایک گروپ کو وزیراعظم کے ساتھ بات چیت کے دوران کابینہ کے اجلاس کے نکات فراہم کیے گئے۔
اس ملاقات میں کسی غیر ملکی حکومت کا نام نہیں لیا گیا لیکن میڈیا والوں کو بتایا گیا کہ میزبان ملک کے ایک سینئر عہدیدار نے پاکستانی سفیر کو کہا تھا کہ انہیں وزیر اعظم خان کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر ان کے دورہ روس اور یوکرین جنگ سے متعلق مؤقف پر مسائل ہیں۔
پاکستانی سفیر کو مزید بتایا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا مستقبل کا رخ اس تحریک عدم اعتماد کی قسمت پر منحصر ہے جسے اپوزیشن جماعتیں اس وقت وزیر اعظم کے خلاف لانے کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔ سفیر کو متنبہ کیا گیا کہ اگر وزیراعظم خان عدم اعتماد کے ووٹ سے بچ گئے تو اس کے سنگین اثرات ہوں گے۔
مبینہ طور پر یہ سفارتی کیبل 7 مارچ کو اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور اس پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے ایک روز قبل بھیجا گیا تھا۔
دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ سفارتی کیبل امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور، ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔ سفیر اسد مجید اب اپنی نئی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے برسلز چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ سفیر مسعود خان کو تعینات کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم خان کے دعوے کے بعداسد مجید اور ڈونلڈ لو کے درمیان ملاقات کے بارے میں اسلام آباد اور واشنگٹن سے متضاد دعوے سامنے آئے ہیں۔
ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ملاقات میں امریکا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان غیر معمولی طور پر سخت تھی۔ دریں اثنا امریکی نجی بات چیت میں اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ پاکستانی سفیر کو کوئی خاص پیغام پہنچایا گیا تھا۔
یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ عمران خان کے ماسکو کے دورے سے خوش نہیں تھی جو اتفاقی طور پر روس کی یوکرین پر جنگ کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے عوامی سطح پر ان خدشات کا اظہار کیا تھا اور دونوں فریقوں نے تسلیم کیا تھا کہ عمران خان کے دورہ ماسکو سے قبل ان کے درمیان بات چیت بھی ہوئی تھی جس میں انہیں دورہ کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔
بعد ازاں یکم مارچ کو اسلام آباد میں مقیم مغربی سفارت کاروں نے بھی ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں پاکستانی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) میں ماسکو سے جنگ بند کرنے کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کی حمایت کرے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ تنازعکو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کیا جائے۔ امریکیوں کو مبینہ طور پر دوسرا مسئلہ وزیراعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی سے تھا۔
امریکا میں تعینات رہنے والے پاکستان کے سابق سفیروں میں سے چند کا کہنا ہے کہ امریکی حکام عام طور پر سرکاری ملاقاتوں کے دوران دھمکیوں کا اظہار نہیں کرتے تھے البتہ ان کا لہجہ صورتحال کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ممالک عمومی طور پر دو طرفہ رابطوں میں ایک دوسرے کے اقدامات پر ناراضگی یا تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں تک کہ اگر انتہائی حالات میں دھمکیاں دی جاتی ہیں تو یہ درست طریقے سے کیا جاتا ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ قابل تردید ہونے کو برقرار رکھا جاتا ہے، ان میں سے ایک نے کہا کہ ’وہ یقینی طور پر نوٹ لینے والوں کی موجودگی میں ایسا نہیں کریں گے‘۔
دونوں سابق سفیروں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم خان کے دور میں خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی سوائے اس کے کہ وہ بات زیادہ کرتے ہیں، لہذا یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اب انہیں ان کی پالیسی سے کوئی مسئلہ کیوں ہوگا جبکہ نہ ہی اسلام آباد نے امریکی مفادات کو کوئی خطرہ پہنچایا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک عمران خان دھمکی کے ساتھ منظر عام پر نہیں آئے اس وقت تک تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ یا نئی کشیدگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
اسلام آباد نے گزشتہ ہفتے او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس کے لیے امریکی انڈر سیکریٹری برائے شہری سلامتی، جمہوریت اور انسانی حقوق عذرا زیا کی میزبانی کی۔
عذرا زیا سے ملاقات کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’دوطرفہ طور پر پاکستان کے امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے دو طرفہ اور مشترکہ علاقائی مقاصد کو فروغ دینے کے لیے ایک باقاعدہ اور منظم مذاکراتی عمل اہم تھا، ہم اس سال پاک امریکا سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ منانے کے منتظر ہیں‘۔
https://twitter.com/SMQureshiPTI/status/1505962589158838280
یہاں تک کہ سفیر اسد مجید نے 16 مارچ کو سفارت خانے کی ایک تقریب میں شرکت پر ٹوئٹر پر مسٹر ڈونلڈ لو کا شکریہ ادا کیا۔
حتیٰ کہ یہ بات منظرِ عام پر آنے کے بعد بھی اسلام آباد میں امریکی سفارتکار کو طلب نہیں کیا گیا۔
ایک مغربی سفارت کار کا خیال ہے کہ ایسا اس لیے ہوا کہ موجودہ سیاسی بحران کے لیے کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جانا تھا اور اس کے لیے امریکا سے بہتر کوئی آپشن نہیں ہو سکتا تھا۔
دریں اثنا امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ کسی بھی امریکی حکومتی ادارے یا عہدیدار نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر پاکستان کو خط نہیں بھیجا۔
ڈان کی جانب سے مبینہ خط اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں امریکا کے ملوث ہونے کے بارے میں سوالوں کے جواب میں محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں‘
واشنگٹن میں بعض سفارتی ذرائع کے مطابق یہ خط واشنگٹن کی جانب سے ایک سفارتی کیبل ہو سکتا ہے جس کا مسودہ ایک سینئر پاکستانی سفارت کار نے تیار کیا تھا، سفارت ذرائع نے بتایا کہ خط کے مندرجات بظاہر پاکستانی اور دیگر حکام کے درمیان غیر رسمی بات چیت پر مبنی ہیں۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اس طرح کی گفتگو اکثر دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں ہوتی ہے اور سفارت کار اکثر اپنے آبائی ممالک میں حکام کے ساتھ ایسی گفتگو کا مواد شیئر کرتے ہیں۔
سفارت ذرائع نے مزید کہا کہ اس طرح کی سفارتی کیبلز کے پیچھے مقصد آپ کی حکومت کو باخبر رکھنا ہے، یہ کسی حکومت یا شخصیت کے خلاف سازش کی علامت نہیں ہے۔