سپریم کورٹ کے موجودہ بنچ میں دو جج ایسے شامل ہیں جنہوں نے میرے خلاف فیصلہ سنایا تھا۔ سیدھی بات ہے کہ جب ہمیں یہ بنچ ہی قبول نہیں تو اس کا فیصلہ کیسے قبول ہوگا؟ فل کورٹ بنائیں، اس کا فیصلہ سب کو قبول ہو گا۔ تین کے بنچ میں آخر کیا مصلحت ہے؟ فل کورٹ پر پورا اعتماد ہے۔ سنا ہے کہ آج عدالت میں چیف جسٹس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اگر اللہ کے ڈر سے آئے ہیں تو اچھی بات ہے۔ یہ کہنا ہے مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کا۔
لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ قوم پر اپنی مرضی کے فیصلے ٹھونسنا چاہتے ہیں، امید ہے کہ اللہ ایسے فیصلوں سے ملک کو بچائے گا۔ کیا سارے فیصلے عمران خان کی خاطر کرنے ہیں؟ اٹارنی جنرل پاکستان اور سول سوسائٹی سب فل کورٹ کا کہہ رہے ہیں تو پھر کیوں اصرار کیا جا رہا ہے کہ یہ تینوں جج بنچ میں شامل رہیں گے۔ 2017 میں بھی اسی قسم کا بنچ بنا تھا جس کی وجہ سے ملک کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ قوم کو انہی بنچوں کے فیصلوں نے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ثاقب نثار اور دیگر ریٹائرڈ جج کیا آج قوم کو بتائیں گے کہ مجھے کیوں نااہل کیا گیا تھا؟ آپ نے کبھی ان باتوں پر ازخود نوٹس لیا جو جسٹس شوکت صدیقی نے کی تھیں؟ جنرل باجوہ جو باتیں کر رہے ہیں تو کیا اس بات پر سوموٹو نہیں بنتا کہ نوازشریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی؟ انہی بنچوں کے فیصلوں نے اچھی بھلی قوم کو بھکاری بنا دیا ہے۔ جو کچھ آج ہو رہا ہے مجھے 2017 کا تسلسل لگ رہا ہے۔ عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ان فیصلوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔