Get Alerts

9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ میں PTI کے سوشل میڈیا کا کتنا کردار تھا؟

9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ میں PTI کے سوشل میڈیا کا کتنا کردار تھا؟
پاکستان تحریک انصاف کو اگر ایک طرف ملکی سیاست میں سوشل میڈیا کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے والی بانی جماعت کہا جاتا ہے تو دوسری طرف سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر حد درجہ جاری یہی سرگرمی اب اس جماعت کے وجود کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔

ملک بھر میں 9 مئی کو پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے جلاؤ گھیراؤ اور دنگا فساد کر کے فوجی تنصیبات اور سرکاری عمارتوں کو جس بدترین طریقے سے آگ لگائی گئی اس میں ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا کا استعمال ایک حکمت عملی کے ساتھ کیا گیا۔

گذشتہ کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا پی ٹی آئی کی سیاست کا محور رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پی ٹی آئی اپنے تمام تر سیاسی معاملات سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر ہی سیٹ کرتی آئی ہے تو غلط نہ ہو گا۔

سوشل میڈیا ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ عمران خان کو اقتدار میں لائے تھے انہی لوگوں نے پی ٹی آئی کے لیے سماجی رابطوں کا نظام کھڑا کیا اور ان کے کارکنوں کو کچھ اس طرح تربیت دی گئی کہ ان کے 'کی بورڈ واریئرز' کے ذہنوں میں یہ بات کندہ کی گئی کہ عمران خان کے علاوہ باقی تمام لوگ چور ڈاکو ہیں اور ان کی ساری باتیں جھوٹ اور فریب پر مبنی ہیں۔

بی بی سی کے سابق سوشل میڈیا ایڈیٹر اور سینئیر صحافی طاہر عمران کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سب سے پہلے سیاست میں سوشل میڈیا کے ذریعے سے نفرت پھیلانا اور لوگوں کی عزتیں اچھالنا پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے متعارف کرایا گیا تاہم آج کل اس کام میں تمام سیاسی جماعتیں مساوی طور پر ملوث ہیں۔

بی بی سی کے سابق سوشل میڈیا ایڈیٹر طاہر عمران


انہوں نے کہا کہ ابتدا میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے صاحبزادے آواب علوی سوشل میڈیا پر سیاست دانوں کے خلاف غلیظ اور بے بنیاد پروپیگنڈا کیا کرتے تھے۔ مخالفین کی الٹی سیدھی تصویریں بنا کر انہیں سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر شیئر کرنا اور پھر اس پر طرح طرح کے قابل اعتراض کمنٹ کرنا بھی انہوں نے ہی شروع کیا۔ اس طرح یہیں سے ملک میں گالی گلوچ کا کلچر پروان چڑھا۔

'گذشتہ کچھ سالوں میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ملک میں ایک ایسی فضا بنائی گئی کہ جیسے پی ٹی آئی کے کارکن اس ملک کی سب سے بڑی طاقت ہیں اور وہ نا صرف سب کچھ کر سکتے ہیں بلکہ انہیں روکنے والا بھی کوئی نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے جو تشدد کیا گیا اور حساس مقامات کو نشانہ بنایا گیا اس میں سوشل میڈیا کی تربیت کا بڑا اہم کردار تھا کیونکہ ان نوجوانوں کو اس دن کے لیے تربیت دی گئی تھی۔

طاہر عمران کے مطابق؛ 'مجھے لگتا ہے عمران خان دھوکہ کھا گئے یا ان کے اردگرد لوگوں نے انہیں ورغلایا کیونکہ پی ٹی آئی لیڈرشپ کا شاید خیال تھا کہ جس طرح 2014 میں انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کے گیٹ تک جا کر بلوا کیا اور پی ٹی وی پر حملہ کر کے انہیں کسی نے کچھ نہیں کہا، اسی طرح اس مرتبہ بھی انہیں جانے دیا جائے گا لیکن اس بار یہ دنگا فساد ان کے لیے بہت مہنگا ثابت ہو رہا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ آپ کو ایک احساس دیتا ہے کہ جیسے ساری دنیا میں آپ کی پوسٹ وائرل ہو رہی ہے اور وہاں نظر آنے والی ساری شکلیں آپ کو دیکھ رہی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اصل میں چار لوگ ہی مشکل سے اپ کی پوسٹ دیکھ چکے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 2000 کے بعد سے سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا کو بطور آلہ استعمال میں لانا شروع کیا اور آج کل تمام سیاسی جماعتیں اس کا بھرپور انداز میں استعمال کر رہی ہیں۔ تاہم سیاسی جماعتوں میں پی ٹی آئی اس فہرست میں پہلے نمبر پر آتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا اہلکاروں کا کہنا ہے کہ 2006 میں پی ٹی آئی نے باقاعدہ طور پر سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز کے استعمال کا آغاز کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں موبائل فون کا استعمال اتنا عام نہیں تھا بلکہ صرف امیر کبیر افراد ہی بغیر تار والا فون استعمال کیا کرتے تھے۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں سب سے پہلے پارٹی کی آفیشل ویب سائٹ بھی تحریک انصاف کی طرف سے بنائی گئی تھی۔

ڈاکٹر فیض اللہ جان پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت اور ابلاغ عامہ کے چیئرمین ہیں۔ وہ ماضی میں عملی صحافت میں بھی رہے ہیں۔

ڈاکٹر فیض اللہ جان پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں


انہوں نے کہا کہ جس دن عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اسی دن سے وہ روزانہ سوشل میڈیا پر اپنے کارکنوں سے خطاب کر کے انہیں اشتعال دلاتے اور خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ پہلے انہوں نے جنرل باجوہ کو اپنے نشانے پر رکھا، بعد میں حاضر سروس جرنیلوں کے نام لے کر ان پر تنقید کرتے رہے اور یہ تاثر دیتے رہے کہ ان کی حکومت فوج نے پی ڈی ایم کے ایما پر ختم کی۔

ڈاکٹر فیض اللہ جان کے مطابق اپنی تقریروں میں عمران خان یہ دھمکیاں بھی دیتے رہے کہ اگر ان کو گرفتار کیا گیا تو اس کا سخت ردعمل آ سکتا ہے جو ایک قسم کی اپنے کارکنوں کو تاکید تھی کہ اگر انہیں گرفتار کیا جاتا ہے تو انہیں باہر نکل کر ردعمل دینا چاہئیے اور پھر 9 مئی کو یہ نظر بھی آیا۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران پی ٹی آئی کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایک فیک خبر چلائی گئی کہ عمران خان کو سر پر مارا گیا ہے اور انہیں شدید چوٹیں آئی ہیں جس سے کارکنوں میں شدید اشتعال پیدا ہوا۔

یہ فیک نیوز پی ٹی آئی کے کئی معتبر ٹوئٹر ہینڈلز سے ٹویٹ کی گئی اور امریکہ اور یورپ تک اس بے بنیاد خبر کو ہوا دی گئی بلکہ اس ضمن میں کارکنوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال بھی کیا گیا جس پر بعض غیر ملکی ٹی وی چینلز نے رپورٹیں بھی بنائیں اور اسے فیک نیوز قرار دیا گیا۔

فیض اللہ جان کے بقول ' عمران خان نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز کے ذریعے سے اشتعال کی ایسی فضا بنائی کہ جس میں پی ٹی آئی کارکنوں کو حکومت اور فوج پر یلغار کرنے کے لیے صرف ایک اشارے کی دیر تھی اور اس طرح یہ منظر پھر 9 مئی کو عملی طور پر دیکھا بھی گیا'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کو ہمیشہ سے ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے سے اپنے مخالفیں کا مختلف طریقوں سے شکار کرتی آئی ہے۔

اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو اپنے سوشل میڈیا طریقہ کار میں تبدیلی لانا ہوگی اور فوج اور اس کے جرنیلوں کے بارے میں اپنا پروپیگنڈا فوری طورپر بند کرنا ہو گا ورنہ اس سے ان کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

سینیئر صحافی اور اینکر پرسن سید وقاص شاہ کا کہنا ہے کہ 9 مئی کو جو دنگا فساد ہوا اس میں شامل تمام کارکن پی ٹی آئی کے نہیں تھے بلکہ تشدد میں دیگر جماعتوں کے لوگ بھی شریک تھے لیکن چونکہ احتجاج کی کال تحریک انصاف کی طرف سے دی گئی تھی اسی وجہ سے ذمہ دار بھی انہی کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔

سینیئر صحافی اور اینکر پرسن سید وقاص شاہ


انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا صرف تحریک انصاف کے پاس نہیں ہے بلکہ اب تو ہر جماعت نے ٹیمیں رکھی ہوئی ہیں۔ ہاں البتہ پی ٹی آئی کے بیش تر کارکن نوجوان ہیں اور شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا وہ سوال اٹھاتے ہیں اور زیادہ آگاہی بھی رکھتے ہیں۔

سید وقاص شاہ کے بقول شاید توڑ پھوڑ میں تحریک انصاف کے کارکن زیادہ ملوث نہیں تھے بلکہ یہ ہجوم تھا اور ہجوم کی کوئی سوچ نہیں ہوتی بلکہ ان کے احساسات ہوتے ہیں۔

'آپ نے دیکھا ہو گا کہ گلی محلوں میں لوگ جب کسی چور کو پکڑتے ہیں تو ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔ ہر کوئی آ کر چور کو مارتا ہے، اس وقت کوئی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا کہ چور کیسے پکڑا گیا، کتنی چوری کی ہے یا وہ کیا اسباب تھے جس کی وجہ سے وہ چوری کرنے پر مجبور ہوا۔ یہ معلوم کرتے کرتے چور کا کام تمام ہو چکا ہوتا ہے تو اس طرح شاید پی ٹی آئی کے احتجاج میں بھی ہوا اور جو لوگ طاقت ور اداروں کے سیاست میں ملوث ہونے پر اعتراض کرتے تھے وہ بھی اس دنگے فساد میں شامل ہو گئے تھے حالانکہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں تھا'۔

پاکستان تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ایک نیٹ ورک کی صورت میں کام کرتا ہے جس سے ملک بھر میں سینکڑوں کارکن رضاکارانہ طور پر منسلک ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیموں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ صوبائی، ریجن کی سطح پر اور ضلعی۔

ہر سطح پر درجنوں ٹیمیں مصروف عمل ہوتی ہیں جو دن رات پارٹی کے بیانیے کو مختلف پلیٹ فارمز جیسے ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر فروغ دے رہی ہوتی ہیں۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سربراہ اکرام کھٹانہ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اس وقت پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے ساتھ سینکڑوں کارکن منسلک ہیں اور یہ تمام اہلکار بغیر کسی تنخواہ کے کام کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ہیڈ اکرام کٹھانہ


انہوں نے کہا کہ ان کی صوبے، ضلع اور ریجن کی سطح پر ٹیمیں موجود ہیں جو مسلسل مرکزی میڈیا ٹیموں سے رابطے میں رہتی ہیں اور ان کی ہدایات کے تحت کام کرتی ہیں۔

ان کے مطابق پی ٹی آئی کے تمام سماجی رابطوں کے کارکن باقاعدہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور انہیں پارٹی پالیسز کے ضمن میں وقتاً فوقتاً تربیت دی جاتی ہے جس کے تحت انہیں کام کرنا پڑتا ہے۔

پی ٹی آئی کے 9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اکرام کھٹانہ نے اس بات کو سختی سے مسترد کیا کہ فوجی اور سرکاری تنصیبات کو آگ لگانے میں پی ٹی آئی سوشل میڈیا کا کوئی کردار تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمارا کام صرف پارٹی کے بیانیے کو آگے بڑھانا ہے، تشدد اور دنگے فساد سے ہمارا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ تو ایک سازش تھی جس کا مقصد پی ٹی آئی کو ٹریپ کرنا تھا اور اس میں امپورٹیڈ حکومت اور ان کے کارندے ملوث ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ اگر عمومی طور پر لوگوں کی رائے دیکھی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ لوگ سابق حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں چاہے وہ ماضی کی آمریت دور کی حکومتیں تھیں یا سیاسی حکومتیں اور جب ایسے لوگ کوئی ردعمل دیتے ہیں تو اسے تحریک انصاف کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔