میں جس جگہ رہتا ہوں اس کی بالکونی سے ایک مدرسہ باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ میں جب بھی اپنی بالکونی میں کھڑا ہوتا ہوں، مجھے مدرسے کی چھت پر طالبعلم اپنے روز مرہ کاموں میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ شروع میں تقریباً ایک ہفتے تک مجھے یہ ان بچوں کی نارمل روٹین لگی۔ یہ بچے اپنے مسکراتے چہروں کے ساتھ کھیل کھود میں مصروف رہتے تھے۔ ان میں سے کچھ بچے اپنے کپڑے دھوتے دکھائی دیتے تھے۔ کچھ کتابیں پڑھنے میں مشغول اور کچھ آپس میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے دکھائی دیتے تھے۔ جبکہ باقی کھیل کود کیلئے میدان کا رخ کرتے دکھائی دیتے۔
آہستہ آہستہ انہیں دیکھتے مجھے محسوس ہوا کہ ان میں سے بہت سے بچے انتہائی کم عمر تھے۔ مجھے احساس ہونا شروع ہوا کہ جو مسکراہٹ میں ان کے لبوں پر سجی دیکھ رہا تھا وہ مصنوعی تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ وہ بچے خوش نہیں تھے۔ وہ خوش ہو بھی کیسے سکتے ہیں؟ ایک معصوم بچہ جسے اس عمر میں اپنے گھر میں موجود ہونا چاہیے، جہاں اسے اپنے خاندان کا پیار محبت اور توجہ مل سکے وہ ایک ایسے مدرسے میں کیونکر خوش رہ سکتا ہے جہاں اسے اپنے کپڑے خود دھونے پڑیں؟ قاری صاحب کے غصے اور بدلتے موڈ کے بارے میں پریشانی لاحق ہو؟ اور اپنے اجنبی روم میٹس کو برداشت کرنا ہو؟
ہمارے وطن میں بے شمار بچے انتہائی کم عمری میں مدرسے میں بھیج دیے جاتے ہیں۔ یہ مدارس دینی تعلیم دیتے ہیں۔ ان بچوں کو دینی تعلیم مکمل ہونے تک یہیں قیام کرنا ہوتا ہے۔ یہ مدرسہ ان کے گھر کی مانند ہوتا ہے۔ ایک ایسا گھر جہاں ماں باپ یا بہن بھائی موجود نہیں ہوتے ہیں۔ جہاں بچپن کی شرارتوں اور مزوں کا کوئی تصور موجود نہیں ہوتا اور جہاں قاری صاحب کا خوف ہمہ وقت لاحق رہتا ہے۔ اپنے دوست سے ان بچوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ جب بھی یہ بچے نزدیک کے میدان میں کھیل کھود کیلئے جاتے تھے اور واپسی پر اگر انہیں تھوڑی دیر ہو جاتی تو انہیں قاری صاحب کی مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
ذرا خود کو ان بچوں کی جگہ پر رکھ کر تصور کیجئے کہ آپ اپنی عمر کے بچوں کو میدان میں کھیل کود کے عمدہ جوتے اور کپڑے زیب تن کیے دیکھتے ہیں اور آپ کے پاس پہننے کیلئے پرانے کپڑے ہیں اور کسی قسم کے کھیل کود کے جوتے موجود نہیں ہیں اور نہ ہی آپ کا خاندان آپ کے قریب ہے۔ ان بچوں کو کھیلتے کودتے دیکھتے اعلیٰ معیار زندگی اپناتے دیکھ کر آپ کو برین واش کر کے ذہن میں یہ خیال ڈالنا کس قدر آسان ہے کہ تمام امیر آدمیوں اور اچھے معیار زندگی رکھنے والے افراد کو جینے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ عیش میں ہیں اور آپ استحصال کا شکار ہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جو ان بچوں کو ڈپریشن اور مختلف ذہنی امراض میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ان بچوں کو کم عمری میں ہی جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور زندگی کی زیادہ تر خوشیوں سے یہ محروم رہتے ہیں۔
میرے ذاتی خیال میں ایک بچے کیلئے کم عمری میں سب سے اچھی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے۔ اور اس کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔ ایک بچے کو یہ سیکھنا چاہیے کہ اسے کیسے کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا ہے اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بچپن کی شرارتوں سے لطف اندوز ہونا ہے۔ اسے روز مرہ کے معمولات زندگی سے آشنائی ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں گھر کے علاوہ کوئی دوسرا ادارہ یا درسگاہ معاون نہیں ہو سکتی۔ ان بچوں کو یقیناً روایتی تعلیم یا مذہبی تعلیم دینی چاہیے لیکن انہیں ان کے بچپن سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں ذہنی مریض مت بنائیے اور انہیں جنسی ہراسانی کا نشانہ مت بننے دیجئے۔ انہیں خاندان اور اس کے پیار سے آشنا کیجئے۔ انہیں دیکھنے دیجئے کہ ایک خاندان کیسے پروان چڑھتا ہے۔ انہیں پہلے اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونے دیجئے۔ ازراہ کرم اپنے بچوں کو کم عمری میں مدرسے مت بھیجئے۔
مصنف نمل یونیورسٹی میں ابلاغیات کے طالبِ علم ہیں اور روزنامہ آزادی میں بطور سب ایڈیٹر فرائض انجام دیتے ہیں۔