'عمران خان کے جلوس میں مشکل سے دو سے ڈھائی ہزار لوگ شامل ہیں'

'عمران خان کے جلوس میں مشکل سے دو سے ڈھائی ہزار لوگ شامل ہیں'
معروف کالم نگار مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ میں عمران خان کے پاس بہت زیادہ عوامی طاقت نہیں ہے۔ لوگ خود سے نہیں اٹھے۔ ترکی میں لوگ خود سے نکلے تھے اور وہاں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ہرایا تھا۔ وقتی طور پر شور ڈالنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ جیت گئے، آج عمران خان جشن منا رہے ہیں اور کل جب ہار جائیں گے تو پھر کیا رہے گا ان کے پاس۔ عمران خان اسلام آباد آئیں گے تو تصادم ہوگا، محاذ آرائی ہوگی، لڑائی ہوگی۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی مفاہمت نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف کا شو اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی میں لگے گا اور عمران خان چوکیداروں سے کہے گا کہ چپ کرکے نہ بیٹھیں میرے ساتھ آئیں اور چوروں کو پکڑیں۔ یہ اس لیے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ راولپنڈی میں پرویز الہیٰ کی حکومت ہے۔ پرویز الہیٰ کہتے ہیں کہ اوپر اللہ ہے اور نیچے جنرل باجوہ ہے، درمیان میں کچھ ہے ہی نہیں۔ عمران خان کا پھڈا چوکیدار سے ہے تو بنتا یہی ہے کہ وہ پنڈی جائیں اور انہی سے بات کریں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس اختیار نہیں ہے اور وہ ان سے بات کریں گے جن کے پاس طاقت ہے۔ عمران خان کو چاہئیے کہ ہمت پیدا کریں اور جی ایچ کیو کے سامنے جا کر بیٹھیں اور ان سے الیکشن کا مطالبہ کریں۔

معروف دانش ور ضیغم خان کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ شروع ہونے کے بعد عمران خان کے مطالبے کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اب وہ الیکشن کی بات نہیں کر رہے بلکہ مسلسل فوج کے خلاف بول رہے ہیں۔ عمران خان کی آرمی چیف کی تعیناتی میں اپنی مرضی مسلط کرنے کا مطالبہ اتنا غیر آئینی ہے کہ اس کے اثرات صرف جمہوری نہیں ہیں بلکہ آئینی طور پہ بھی اس کے بہت نقصانات ہیں۔ کل کلاں اپوزیشن کے کسی لیڈر، کسی مذہبی جماعت کے رہنما یا انتہا پسند اور جہادی تنظیموں کی طرف سے مطالبہ آ جائے گا کہ ہماری مرضی کا آرمی چیف لگائیں اور وہ اپنے لوگ لے کر اسلام آباد آ جائیں گے۔

ضیغم خان نے کہا ہے کہ عمران خان کے بارے میں جتنے اندازے لگائے گئے تھے وہ سب غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ حکومت سے نکلنے کے بعد پہلے سے زیادہ پاپولر ہوگیا ہے، اپنی نا اہلی کا سارا ملبہ کامیابی سے اپوزیشن جماعتوں پر ڈال چکا ہے۔ جغرافیائی طور پر اس وقت جو لوگ عمران خان کی سپورٹ میں آ رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ بھی ایک چیلنج ہے۔

آج کے دور میں احتجاج میں لوگوں کی تعداد کی زیادہ اہمیت نہیں رہی، اس وقت کیمرے کی مدد سے دعوے کیے جاتے ہیں۔ اس دھرنے کے شرکا 2 ہزار لوگ نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام ہیں۔ یہ پی ٹی آئی کی کامیابی ہے کہ وہ پورے ملک کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ باقی سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے۔ عمران خان کی یہ کامیابی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد مسلسل توجہ کا محور بنے ہوئے ہیں۔ میڈیا کے لیے فریم ہی وہ سیٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے تصادم کسی بھی صورت میں پی ٹی آئی کے حق میں نہیں جاتا، اس لیے وہ تصادم والی طرف نہیں جائیں گے۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق عمران خان کا آدھا کلومیٹر کا جلوس ہے، اس میں مشکل سے دو سے اڑھائی ہزار لوگ شامل ہیں اور جب وہ کسی جگہ پر تقریر کرتے ہیں تو وہ بڑھ کر چار سے پانچ ہزار ہو جاتے ہیں۔ عمران خان کا مشن تھا کہ وہ اپنی پسند کا آرمی چیف لگائے گا اور اگلے پندرہ، بیس سال حکومت کرے گا اور اس ملک کا جو آئینی ڈھانچہ ہے وہ بھی تبدیل کردے گا۔ فرض کریں پچاس ہزار لوگ بھی ان کے ساتھ آ جائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پچاس ہزار لوگوں کو اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ 22 کروڑ عوام کی تقدیر کا فیصلہ کریں؟

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔