پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 31 اکتوبر کو اپنے لانگ مارچ کے دوران کنٹینر سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدا کے لئے چوروں کا ساتھ مت دیں۔
عمران خان کو ایسے بیانات اب دھیان سے دینے چاہییں کیوں کہ توشہ خانہ کیس کے بعد ان کی اپنی چوری بھی پکڑی گئی ہے اور ان کے سیاسی مخالفین اب ان کو سرٹیفائیڈ چور جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ تاریخ کے عجیب دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف آگ ہے تو دوسری طرف دیوار۔ اگر ایک طرف چور ہیں تو دوسری طرف نااہل مگر زیادہ مناسب وضاحت یہ ہوگی کہ ایک طرف چور ہیں تو دوسری طرف والے چور بھی ہیں اور نااہل بھی۔ عمران خان کی بات کو اگر سچ بھی مان لیا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ چوروں کا ساتھ نہ دے تو پھر کس کا ساتھ دے؟
ان نااہلوں کا جنہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد قوم سے ایک کروڑ نوکریوں کا اور 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا؟ جنہوں نے اپنے ارسطو اسد عمر کے ذریعے ملک کی معیشت کو درپیش مسائل کو حل کرنا تھا؟ جنہوں نے گورنر ہاؤس جیسی سرکاری عمارتوں پر یونیورسٹیاں بنانی تھیں؟ جنہوں نے غیر ملکی ماہرین کے ذریعے سے دیہات کو ترقی اور خوشحالی دینی تھی؟ جنہوں نے پاکستان میں گورننس کے مسائل حل کرنے تھے؟ جنہوں نے پاکستان کی سیاست میں سے اسٹیبلشمنٹ کا غیر آئینی کردار ہمیشہ کے لئے ختم کرنا تھا؟ عمران خان کے لانگ مارچ کے شروع ہونے پر لندن میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے درست کہا کہ عمران خان کے انقلاب کو قوم ان کے چار سالہ دور میں دیکھ چکی ہے۔
عمران خان اور ان کی پارٹی اپنے دور حکومت میں شدید نااہل ثابت ہوئی۔ ان کے عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے کوئی بھی وعدہ وفا نہیں ہوا۔ بلکہ حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوئے۔
تحریک انصاف اور ان کے حامی اپنی نااہلی اور ناکامی کو احساس کارڈ کا پتہ کھیل کر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلاشبہ احساس کارڈ ایک اچھا پروگرام تھا جس سے پاکستان کے عام آدمی کو صحت کی اچھی سہولیات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کا یہی مینڈیٹ تھا تو پھر ان کو وزیر اعظم کی کرسی پر ہونے کی بجائے ثانیہ نشتر کی جگہ پر ہونا چاہیے تھا۔
اس سے دو فائدے ہوتے۔ ایک تو عمران خان کے اوپر توقعات کا اتنا بوجھ نہ ہوتا اور دوسرا پاکستان کی قوم کے قیمتی چار سال بچ جاتے۔
اس کا ایک تیسرا فائدہ بھی ہوتا کہ عمران خان کی وزیر اعظم بننے کی تیاری ہو جاتی۔ حکومت کے کھو جانے کے بعد عمران خان اور ان کے حامی یہی توجیہ پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کی حکومت میں آنے کی تیاری نہیں تھی۔
پاکستان پہ کبھی کبھی بہت ترس آتا ہے کہ اس ملک نے کیا قسمت پائی ہے کہ جن کی تیاری نہیں ہوتی ان کو اس ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے۔ بات صرف یہاں پر نہیں رکتی بلکہ ان کو ایک اور موقع دینے پہ بھی قوم کا کافی ہجوم متفق نظر آتا ہے۔
پاکستان ایک قومی ریاست کی بجائے ایک لیبارٹری دکھائی دیتی ہے جس میں نااہلوں کو چیک کیا جاتا ہے اور بار بار آزمایا جاتا ہے۔ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ آپ بوری سینے والے سوؤئے کے ساتھ گھی اور شکر نہیں کھا سکتے۔ اسی طرح آپ نااہلوں سے کبھی بھی فیض نہیں پا سکتے۔
پاکستان کے عوام کا وہ ہجوم جو عمران خان کو ہر نااہلی اور غلطی پر کلین چٹ دے دیتا ہے اگر ان کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو ان میں تین طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں۔
پہلا طبقہ نوجوان افراد کا ہے جس میں زیادہ تر غیر شادی شدہ ہیں۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جس میں وہ افراد ہیں جو اپنی عملی زندگی سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ تیسرا وہ والا طبقہ ہے جو پاکستان سے باہر رہتا ہے اور یہاں پر واپس آ کر بسنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
ان تینوں طبقات کے افراد میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ پاکستان کی موجودہ دور کی عملی زندگی کی تلخیوں سے واقف نہیں ہیں۔ پاکستان میں مڈل کلاس کا وہ طبقہ جو اپنے بیوی بچوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے شدید پریشانی کا شکار ہے اور وہ نااہل لوگوں کو بار بار موقع دینے سے خوف زدہ ہو گیا ہے۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ وہ تیں طبقے جو عمران خان کی حمایت میں سینہ کوبی کر رہے ہیں ان میں اور ان کے لیڈر عمران خان میں ایک قدر مشترک ہے۔ وہ یہ کہ عمران خان کے اوپر بھی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ بیوی بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و صحت وغیرہ کے اخراجات سے بری الذمہ ہیں۔ اس لئے وہ صبح و شام انقلاب انقلاب کی تسبیح پڑھتے ہیں۔
کسی بڑے آدمی نے کہا تھا کہ اگر تم دنیا بدلنے چاہتے ہو تو گھر جاؤ اور اپنے خاندان سے محبت کرو اور ان کی ذمہ داریاں پوری کرو۔ سیاسی انقلاب مسائل کے حل کا نام ہوتا ہے اور جن کو وہ مسائل نہ ہوں جن کا عام عادمی کو سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کا انقلاب فقط باتوں اور سبز باغ دکھانے تک محدود ہوتا ہے۔
پاکستان کی ایک اور بدقسمتی ہے کہ یہاں پر نااہلوں کو بار بار آزما کر ہر دفعہ نئے نتائج کی توقع کی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کی اکثریت آج کل یہ موقف رکھتی ہے کہ عمران خان کو ایک موقع اور دو، اگر اس دفعہ بھی وہ ناکام ہو گئے تو ہم ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔
مگر کیا قرضوں، بے روزگاری، غربت، دہشت گردی، انتہا پسندی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ملک نااہلوں کو پھر سے آزمانے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے پاکستان ان ذمہ داران سے التجا اور استدعا کر رہا ہو کہ جن کے پاس یہاں پر لوگوں کو اقتدار کی کرسیوں پر لانے کی طاقت ہے کہ خدا کے لئے میرے اوپر چوروں کے ساتھ ساتھ نااہلوں کو پھر سے مسلط کرنے کی اجتہادی غلطی نہ کرنا۔
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔