سعودی عرب نے پاکستان میں 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے لیے بڑی شرط رکھ دی ہے۔ سعودی عرب کا مطالبہ ہے کہ اگر سرمایہ کاری کے دوران دونوں ملکوں کے مابین کوئی تنازعہ کھڑا ہوتا ہے تو اس کا فیصلہ پاکستان کی عدالتیں نہیں کریں گی بلکہ یہ معاملہ ورلڈ بینک کی بین الاقوامی آربٹریشن کورٹ میں جائے گا۔ موجودہ معاشی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کے پاس اس شرط کو ماننے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف نے۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ ماضی میں ڈالر کی قلت اور دیگر معاشی مسائل کے تحت پاکستان نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض کی صورت میں مالی امداد مانگی تھی اور آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی منظوری کے لیے بھی پاکستان نے سعودی عرب اور یو اے ای سے قرض کی صورت میں مدد مانگی تھی جس پر دونوں ممالک کی جانب سے یہ تجویز دی گئی تھی کہ آپ کچھ ایسا منصوبہ بنائیں جس کے تحت ہم آپ کے ملک میں سرمایہ کاری کریں۔ آپ کی 'بیلنس آف پیمنٹ' کے لیے ڈالر کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور آپ کو قرض بھی نہیں مانگنا پڑے گا۔ آپ کی معیشت کو بھی طویل مدتی فائدہ حاصل ہو گا۔ اس کے بعد پاکستان کے آرمی چیف کی جانب سے معاشی پالیسی پیش کی گئی جس میں بیرونی سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں ون ونڈو آپریشن ہو گا اور سرمایہ کاروں کو دیگر بیوروکریٹک مسائل سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ انہیں حکومت کی جانب سے بھرپور مدد فراہم کی جائے گی۔
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت شہزادہ محمد بن سلمان نے آرمی چیف کو پاکستان میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔ پاکستان آئندہ 3 سے 5 سالوں میں 70 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری سعودی عرب اور یو اے ای سے لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ گذشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین مذاکرات چل رہے ہیں تاکہ سعودی عرب کو 25 ارب ڈالر کی فوری سرمایہ کاری کے لیے رضامند کیا جا سکے۔ اس حوالے سے 2 بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری ہو گی؛ گوادر میں آئل ریفائنری اور ریکوڈک پراجیکٹ۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے پاکستان میں آئل ریفائنری میں 12 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے حوالے سے اعلان کیا گیا تھا لیکن اس پر کام نہیں ہو سکا تھا۔ اب اس منصوبے کو شروع کیا جائے گا۔ ریکوڈک پراجیکٹ کے 50 فیصد شیئرز بیرک گولڈ کمپنی اور 50 فیصد وفاقی اور بلوچستان حکومت کے شیئرز ہیں۔ پاکستان اپنے شیئرز میں سے کچھ سعودی عرب کو بیچنا چاہتا ہے تاکہ اس پراجیکٹ کی رفتار میں اضافہ کیا جا سکے۔ دونوں منصوبوں پر سرمایہ کاری قریب قریب 23، 24 ارب ڈالرز بنتی ہے۔
صحافی نے بتایا کہ سعودی عرب اور پاکستان میں مذاکرات چل رہے ہیں تاکہ ایک دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدہ طے پا جائے۔ سعودی عرب نے سرمایہ کاری کرنے کے لیے ایک بڑا مطالبہ کیا ہے کہ جب سرمایہ کاری کے لیے دونوں ممالک کا تحریری معاہدہ ہو جائے گا تو اس دوران اگر دونوں ممالک کے درمیان کوئی تنازع جنم لیتا ہے تو یہ معاملہ مقامی عدالتوں میں نہیں بلکہ ورلڈ بینک کی بین الاقوامی آربٹریشن کورٹ (انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس) میں جائے گا۔ صحافی نے کہا کہ ماضی میں جب سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے ریکوڈک پراجیکٹ میں رکاوٹ آئی تو کیتھیان کاپر کمپنی بین الاقوامی آربٹریشن میں چلی گئی تھی اور نتیجے کے طور پر پاکستان پر 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا کیونکہ پاکستان نے کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر کے اس کی پاسداری نہیں کی تھی۔ تاہم اس کیس کی عدالت سے بالا سیٹلمنٹ کی گئی۔ اسی وجہ سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس فیصلے پر تنقید بھی کی تھی کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی وجہ سے پاکستان کے مفادات کو نقصان ہوا۔ یہ ایک ہمالین مسٹیک تھی۔
صحافی نے بتایا کہ ریکوڈک والے تجربے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کے قوانین میں کچھ ترامیم کیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ اگر مستقبل میں ملک میں کوئی بھی سرمایہ کاری آتی ہے اور کوئی تنازع ہوتا ہے تو بین الاقوامی نہیں بلکہ مقامی آربٹریشن ہو گی۔ لیکن اس کے بعد سے وزارت قانون سمیت متعلقہ اداروں کی جانب سے کوئی کام کیا گیا اور نہ ہی کوئی میکنزم بنایا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری پالیسیز میں مستقل مزاجی نہیں ہے۔
تاہم اب سعودی عرب کا مطالبہ ہے کہ وہ پاکستان میں اسی صورت میں سرمایہ کاری کرے گا جب پاکستان بین الاقوامی آربٹریشن کو تسلیم کرے گا۔ ایس آئی ایف سی کی ایگزیکٹو کمیٹی میں اس معاملے کو زیر بحث لایا گیا اور سعودی عرب سے مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا۔ غالب امکان ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی اس شرط کو مان لے گا۔ بین الاقوامی آربٹریشن والے معاملے پر وفاقی کابینہ سے منظوری لینا ہو گی۔ پی ٹی آئی حکومت کا ماضی میں کیا گیا فیصلہ ریورس کرنا ہو گا۔ کیونکہ پاکستان کو معاشی صورت حال کے پیش نظر سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے اور سعودی عرب کی شرائط ماننی پڑیں گی۔ اگر مقامی سرمایہ کاروں کی ہی بات کریں تو انہیں پاکستان کی مقامی عدالتوں اور نظام انصاف پر یقین نہیں تو بیرونی سرمایہ کاروں کو کیسے ہو سکتا ہے۔ اور یہاں بات 70 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہو رہی ہے۔ جس میں سے صرف دو منصوبوں پر ہی 23 سے 24 ارب ڈالر سرمایہ کاری آئے گی۔ جب کوئی ملک سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو وہ نقصان کے لیے تو نہیں کرے گا۔ وہ تمام تقاضے پورے کرے گا تاکہ اس کا یہ فیصلہ 'رِسک فری' ہو۔ موجودہ معاشی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کے پاس اس شرط کو ماننے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے اور وفاقی کابینہ بھی اس کی منظوری دے دے گی۔