خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اپنا ہدف حاصل کر پائے گی؟

معاشی ماہر عاطف میاں کہتے ہیں ایس آئی ایف سی کو ناکام ہی ہونا ہے جیسا کہ اس سے پہلے اس قسم کے پروجیکٹ ناکام ہوئے ہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح کے سہانے خواب پاکستانیوں کو دکھائے گئے کہ بس فلاں پروجیکٹ مکمل ہو جائے تو پاکستان کے دن پھر جائیں گے جس کی مشہور مثال سی پیک ہے۔

خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اپنا ہدف حاصل کر پائے گی؟

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں اور امید ظاہر کر رہے ہیں کہ عرب ممالک سے اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ لے کر آئیں گے اور ہچکولے کھاتی ملکی معیشت کو استحکام کی جانب لے کر جائیں گے۔ حال ہی میں ایکسپریس ٹریبیون نے ایک خبر شائع کی جس کے مطابق پاکستان نے کویت کے ساتھ 10 ارب ڈالر کے ایم او یوز سائن کیے ہیں۔ اس تناظر میں سوشل میڈیا پر بھی لوگ ملی جلی رائے کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس سے پاکستان کی معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ کہ آیا آرمی چیف اور نگران وزیر اعظم کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ نہیں کہ وہ ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنے نکل پڑیں؟

آرمی چیف کی یہ مہم جوئی آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد فوراً شروع ہو گئی تھی اور انہوں نے کمر باندھ لی تھی کہ معیشت کو بہتر کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔ اسی تناظر میں انہوں نے اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ مل کر ایس آئی ایف سی (سپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل) یعنی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا ادارہ تشکیل دیا۔

ایس آئی ایف سی کا مقصد دوست ممالک سے انویسٹمنٹ لا کر ملک کی تقدیر بدلنا ہے۔ ایس آئی ایف سی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انرجی اور کان کنی (منرلز) کے ایسے شعبے ہیں جن میں باہر سے انویسٹمنٹ لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کونسل کے قیام کا مقصد یہ بھی ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو سرمایہ پاکستان میں لانے کے وقت تمام آپریشنز ون ونڈو کے تحت آسان بنائے جائیں۔

لیکن کیا ایس آئی ایف سی سے ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بارے میں بہت سارے لوگ متضاد رائے رکھتے ہیں۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر عاطف میاں پاکستان کی معاشی حالت پر گہری نظر رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایس آئی ایف سی کو ناکام ہی ہونا ہے جیسا کہ اس سے پہلے اس طرح کے پروجیکٹ ناکام ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی اس طرح کے سہانے خواب پاکستانیوں کو دکھائے گئے کہ بس فلاں پروجیکٹ مکمل ہو جائے تو پاکستان کے دن پھر جائیں گے جس کی مشہور مثال سی پیک ہے۔ اس وقت کے عہدہ داران کہہ رہے تھے کہ سی پیک سے کل عالمی تجارت کا 4 فیصد حصہ پاکستان کو حاصل ہوگا لیکن حقیقت میں 0.4 فیصد بھی پاکستان کو نہیں مل سکا۔

عاطف میاں کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح آج سی پیک قرضوں کا جال ثابت ہوا ہے، مستقبل میں ایس آئی ایف سی بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا کیونکہ جب باہر سے سرمایہ کار آئیں گے تو وہ منافع میں کمائے گئے سرمایہ کو پاکستان میں ری انویسٹ کرنے کے بجائے پاکستان سے باہر لے جائیں گے تو اس سے پاکستان کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہو گا۔ یاد رہے کہ پاکستان نے اگلے تین سالوں میں 80 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں۔

عزیر یونس ڈائریکٹر فار پاکستان انیشی ایٹو اٹلانٹک کونسل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایس آئی ایف سی نئی بوتل میں پرانی شراب کے مترادف ہے۔ عمران خان کے دور میں بھی اس طرح کی کونسل بنی تھی جس میں جنرل باجوہ بھی شامل تھے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی کوشش جنرل ایوب خان کے زمانے سے جاری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر لوکل پاکستانی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتا تو پاکستان میں بیرونی سرمایہ کار کیوں آئیں گے؟ وہ اس کا بھارت سے موازنہ کرتے ہیں کہ انڈیا میں انفوسس، وپرو اور جیو جیسے اسٹارٹ اپ موجود ہیں جن کی وجہ سے ایمزون اور ٹیسلا جیسی بڑے کمپنیاں انڈیا آنا چاہتی ہیں۔ دنیا میں لوکل سرمایہ کاری ہو یا بیرونی سرمایہ کاری، اس کو ایک ہی جیسا ماحول چاہئیے ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اگر پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے سرمایہ کاری کا ماحول بہتر ہوگا تب ہی باہر سے لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔

عاطف میاں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان بیرونی سرمایہ کاری صرف ڈالر کی شکل میں اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو ختم کرنے میں نہ وصول کرے جو کہ مختصر مدت کی پلاننگ ہے بلکہ ٹیکنالوجی اور سکلز ڈویلپمنٹ کی شکل میں وصول کرے جو کہ لانگ ٹرم پلاننگ ہے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو اس بات پر آمادہ کرے کہ آپ لوکل پاکستانی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر کام کریں تا کہ جب بیرونی سرمایہ کار پاکستان سے چلے جائیں تو پاکستان کے اپنے سرمایہ کار پاکستان کی ضروریات کو پورا کرنے میں خود کفیل ہوں۔ چین اس کی بہترین مثال ہے۔

عزیر یونس کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ہوگا جیسا کہ الیکٹرک موٹر سائیکل بنا کر پھر اس کو رینیو ایبل انرجی سے چلانا، زراعت کے شعبے میں سینکڑوں سال پرانے طریقوں کو ترک کر کے جدید اے آئی اور بائیو ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک جیسا کہ بھارت کے ساتھ تجارت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پاکستان کے معاشی مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں اور ماحولیاتی تباہی کے جو بادل پاکستان پر منڈلا رہے ہیں ان سے بھی نمٹا جا سکتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار حسین حقانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو برآمدات کا حجم درآمدات سے بڑھانا ہوگا۔ پاکستان کو بھارت سمیت دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو مزید تعلیم یافتہ اور ہنرمند افرادی قوت بھی چاہئیے۔ پاکستان کو چاہئیے کہ وہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرے۔ اس سب کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف پالیسی سازی کی جائے تو دوسری طرف تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔

اس سب کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنائے اور سائنسی خیال پر انویسٹ کرے تا کہ وہاں سے قابل اور ہنرمند افراد نکل کر ملک کو ترقی کی جانب لے کر جائیں۔ مزید یہ کہ خواتین کو بھی کام کرنے کے بھرپور مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں تا کہ ملک ان کی ذہانت اور محنت سے بھی مستفید ہو سکے۔ اس کے علاوہ ملک میں جلد سے جلد انتخابات کرائے جائیں تا کہ ملک سیاسی استحکام کی جانب بڑھ سکے کیونکہ اس کے بعد ہی ممکن ہے کہ پاکستان معاشی استحکام کی طرف گامزن ہو۔

اجمل جنان نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں صحافت کے طالب علم ہیں۔ انسانی حقوق، تاریخ، ماحولیات اور ایجوکیشن ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ اجمل یوٹیوب پر پوڈکاسٹ بھی کرتے ہیں۔