انڈیا آج گاندھی اور نہرو کا نہیں تو پاکستان بھی قائداعظم کا نہیں رہا

انڈیا آج گاندھی اور نہرو کا نہیں تو پاکستان بھی قائداعظم کا نہیں رہا
ایک روسی ٹی وی کو انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ آج کا ہندوستان نریندر مودی کا ہندوستان ہے نہ کہ مہاتما گاندھی اور نہرو کا۔ تاہم عمران خان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آج کا پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان بھی نہیں ہے۔

پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے روسی ٹی وی کو انٹرویو میں بہت سے موضوعات پر بات کی جس میں انہوں نے اپنی رائے اور تجزیہ عوام کے سامنے رکھا۔ لیکن ان کی باتوں اور ارادوں میں بہت تضاد نظر آتا ہے۔

انٹرویو دیکھتے ہوئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو لگا ہوگا کہ خان صاحب ہمیشہ مثبت سوچتے ہیں اور ایک اسی رویے کے مالک ہیں۔ مگر اس وقت پاکستانی عوام کس اذیت سے گزر رہی ہے اس کا انھیں علم نہیں ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے۔ پاکستان سیاسی اعتبار سے کمزور ہو چکا ہے۔

عمران خان سے صوفی ازم کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب میں انہوں نے انسانی ذمہ داریوں کے حوالے سے بات کی کہ ایک انسان کو اپنے آپ سے یہ سوالات پوچھنے چاہیں کہ وہ کیوں پیدا کیا گیا اور اس کا دنیا میں آنے کا کیا مقصد تھا۔

تاہم اگر عمران خان کے ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے تو وہ انتہائی رنگین مزاج اور ایک آزاد خیال انسان تھے۔ اب جب کے وہ اپنے بڑھاپے میں پہنچ چکے ہیں تو وہ مذہب اور روحانیات پر کافی زور دیتے ہیں۔

پشتو کے شاعر غنی خان نے اپنے ایک شعر میں کیا خوب کہا ہے کہ "بڑھاپے میں توبہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، توبہ تو تب کرنی چاہیے جب جوانی اور طاقت ہو، اب اگر توبہ ہو بھی تو یہ خوف خدا نہیں بلکہ تیرے زوال نے تجھے مجبور کیا" کیونکہ خان صاحب جوانی میں خدا سے دور تھے۔ اب سیاست میں آئے تو تسبیح اٹھا لی۔

سوالات کا سلسلہ جاری تھا کہ دوسرے سوال کے جواب میں عمران خان نے دو بڑے مسائل پر بات کی جو کہ حقیقت ہیں۔ایک موسمیاتی تبدیلی اور دوسرا منی لانڈرنگ۔ یہ غریب ممالک کے سب سے بڑے مسائل ہیں۔

انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے انڈیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کا ہندوستان نریندر مودی کا ہندوستان ہے نہ کہ مہاتما گاندھی اور نہرو کا۔ لیکن انھیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آج کا پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان بھی نہیں ہے۔

ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم ماضی سے کچھ سیکھتے نہیں بلکہ تاریخ کو مسخ کرکے غلط تاریخ پڑھاتے ہیں۔ مگر تاریخ کی غلطیاں اپنی جگہ پر رہنے دیتے ہیں۔

آج کے پاکستان اور ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ چیز واضح نظر آئیگی کہ دونوں ملک ایک ہی جگہ پر کھڑے ہیں۔ ہندوستان میں مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے تو پاکستان میں بھی ہے۔

ہندوستان کی مسلمان لڑکیوں کا حجاب اتارا جاتا ہے تو یہاں حجاب زبردستی پہنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہم ان لڑکیوں اور عورتوں کو گالیاں دیتے ہیں کہ جو حجاب نہیں پہننا چاہتیں۔

وزیراعظم کے وزیر برائے مذہبی امور نے تو عورت مارچ کے خلاف خط لکھ ڈالا ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہ جنونیت نہیں یا صرف بھارت میں ہمیں مذہبی انتہا پسندی نظر آتی ہے۔

پاکستان میں آئے دن ہجوم کسی پر بھی الزام لگا کر اپنی عدالتیں لگا لیتے ہیں۔ سیکڑوں لوگ مل کر کسی کو بھی مار دیتے ہیں۔ جس طرح کا رویہ ہندو انتہا پسند گروپ کے سامنے مسکان نے اپنایا اس کے باوجود وہ زندہ ہے۔ یہاں پاکستان میں اگر کوئی مسیحی یا ہندو لڑکی حجاب کے خلاف نکلی تو کیا کوئی اسے زندہ رہنے دے گا۔ خان صاحب اپنی آنکھیں کھولے اور پاکستانی معاشرے کی فکر کریں۔

ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو اغوا کرکے ان کا ریپ کر دیا جاتا ہے۔ زبردستی ان کا مذہب تبدیل کروا دیا جاتا ہے۔ مذہب کے نام پر تقریباً 75 افراد کو قتل کیا گیا ہے۔ اس طرح سیکڑوں کیسز چل رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت مذہبی انتہا پسندی میں جکڑا جا چکا ہے۔

انٹرویو میں جرنلسٹ نے خان صاحب سے کہا کہ مولانا رومی کہتے ہیں کہ ہوشیار لوگ دنیا تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں اور کشادہ ذہنیت کے لوگ اپنے آپ کو تبدیل کرتے ہیں۔ تو خان صاحب کو ہندوستان سے پہلے پاکستان اور یہاں پر نفرت انتشار اور جنونیت کو قابو کرنے پر اقدامات کرنے چاہیں۔