آرمی چیف کی کوشش ناکام، نواز شریف نے عمران خان سے ڈیل مسترد کر دی

آرمی چیف کی کوشش ناکام، نواز شریف نے عمران خان سے ڈیل مسترد کر دی
آرمی چیف نے عمران خان کے ساتھ موجودہ حکومت کا ڈیڈ لاک ختم کروانے کے لئے ان کی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ ایک ملاقات بھی کروائی جس میں پی ٹی آئی کی طرف سے اسد قیصراور پرویز خٹک شامل ہوئے تھے اور مسلم لیگ (ن) کے ایاز صادق بھی اس میٹنگ کا حصہ تھے۔ فریقین کے درمیان الیکشن کی تاریخ کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی مگر میاں نواز شریف صاحب نے مخالفت کی کہ جلدی الیکشن نہیں کروائے جا سکتے۔

یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی نے رؤف کلاسرا کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں جہاں موجودہ سیاسی صورتحال اور 27 اکتوبر کو ہونے والی ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔

رؤف کلاسرا نے پوچھا کہ عمران خان جس اعتماد کے ساتھ لانگ مارچ کر رہے ہیں اور اسلام آباد کی طرف گامزن ہیں کیا ان کو کوئی گارنٹی دی گئی ہیں یا کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کو اداروں کے اندر سے بھی حمایت حاصل ہے جس کے جواب میں مالک صاحب کا کہنا تھا کہ خان صاحب نے حکومت کے کھو جانے کے بعد شہرت بہت حاصل کی۔ یہ پہلی تبدیلی تھی۔ عمران خان نے بیانیہ بہت بنایا اور بے پناہ سپورٹ حاصل کی۔ یہ پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ لوگ اس لیڈر کو پسند کرتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

رؤف کلاسرا نے سوال کیا کہ کیا جو باتیں پریس کانفرنس میں کی گئی ہیں کیا وہ اس طرح عوامی فورم پر بتانی چاہیے تھیں؟

محمد مالک نے جواب دیا کہ اصولی طور پر تو ایسا بلکل نہیں ہونا چاہیے تھا مگر ایسا ہوا۔ ISPR اور ISI سربراہان کا آنا کیوں ضروری تھا اس پر ہم سب حیران تھے۔ مگر اس کانفرنس کے ذریعے سے ایک واضح پیغام دیا گیا ہے کہ کسی کو شک نہ رہے اور اب ہم طعنے اور تنقید سن سن کر تھک گئے ہیں۔

رؤف کلاسرا نے سوال کیا کہ کیا آرمی کی اسٹیبلشمنٹ توقع کر رہی تھی کہ عمران خان کا اس طرح کا ردعمل ہو گا؟

محمد مالک نے جواب دیا کہ آرمی کی لیڈر شپ کو اندازہ تھا کہ جس طرح کی پریس کانفرنس وہ کر رہے ہیں اس کا ردعمل بھی سخت ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو پتہ ہے کہ اگر وہ لانگ مارچ میں نمبر شو کر دیتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ جو رویہ عمران خان نے اپنایا ہوا ہے وہ ان کے لئے بڑا مہنگا جوا ثابت ہو گا۔

رؤف کلاسرا کا کہنا تھا کہ ماضی میں یہ روایت رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جس کے ساتھ ہوتی تھی وہ حکومت کرتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔

محمد مالک نے کہا کہ عمران خان نے یوتھ اور ٹیکنالوجی کا بہت اچھا ستعمال کیا ہے۔ وہ 70 سال کے ہیں ہے مگر اس کے باوجود نوجوان نسل ان کو سنتی ہے۔ کیوں کہ وہ یوتھ کی پسند کے مطابق کام کرتے ہیں۔

محمد مالک کا کہنا تھا کہ ایک عام خیال یہ تھا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب ہونے کی وجہ سے فوج کے اندر تناؤ ہے۔ پھر یہ بات سامنے آئی کہ کیوں کہ چیف جانے والے ہیں اس لئے کور کمانڈر ہی سب کچھ کر رہے ہیں۔ مگر ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس میں عمران خان کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا ہے۔ عمران خان کی آرمی چیف سے خفیہ میٹنگ کی بھی بات ہوئی۔ اس سے ایک پیغام واضح ہو گیا ہے کہ چیف اب بھی مؤثر ہیں۔ پریس کانفرنس میں عمران خان کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اب بہت ہو گیا ہے، ادارے کی بے عزتی اور غداری کے ٹیگ برداشت نہیں ہوں گے۔

محمد مالک کا کہنا تھا کہ ماضی میں نواز شریف نے بھی اپنی حکومت کے چلے جانے کے بعد فوج پر تنقید کی مگر غداری کی کوئی بات نہیں کی اور حالات اس نہج پر نہیں گئے تھے جہاں پر اب عمران خان لے کر چلے گئے ہیں۔

عمران خان کے آرمی کی لیڈر شپ کے بارے میں سخت مؤقف کے بارے میں محمد مالک کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اب نظر آ گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے لکیر کھینچ دی گئی ہے۔ خان کو اندازہ ہو گیا ہے کہ اب ان کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ماضی والی حمایت نہیں ملنی اس لئے وہ کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔

رؤف کلاسرا نے سوال کیا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اپنی طاقت چھوڑنے کے لئے تیار ہے؟

محمد مالک نے جواب میں کہا کہ آرمی کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ وہ بدل بھی سکتی ہے۔ جیسا کہ فواد چوہدری نے کہا کہ اگر ادارہ عوام کے خلاف جائے گا تو اس کو نقصان ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو ہو رہا ہے اس کے دو نتائج ہوں گے۔

پہلا یہ کہ بہت سے لوگ جو عمران خان کے ساتھ ہیں وہ اپنی پوزیشن پر سوچیں گے اور دوسرا یہ کہ اگر کسی تیسری پارٹی نے عمران خان اور حکومت کے مابین ثالثی کا کردار نہ ادا کیا تو پھر پورا نظام ہی گر جائے گا۔

محمد مالک نے بتایا کہ پریس کانفرنس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے وہ کوئی ڈیزائن نہیں تھا۔ عمران خان کے خلاف کوئی باقاعدہ پلاننگ نہیں کی گئی تھی۔ محمد مالک کا کہنا تھا کہ عمران خان کو یقین تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں آئے گی مگر ان کو بار بار فوجی قیادت کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ ایسا ہونے جا رہا ہے اور ان کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان کے اپنے اتحادی بھی ان سے ناراض ہیں۔ فروری میں عمران خان کو بتا دیا گیا تھا کہ اب ہم نے اپنی آفیشل ڈیوٹیز کے علاوہ کسی دوسرے کام میں نہیں پڑنا لہٰذا وہ حزب اختلاف کے ساتھ بیٹھ کر اپنے معاملات کو طے کریں۔

رؤف کلاسرا نے سوال کیا کہ اسٹیبلشمنٹ ایک دم کیسے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اب انہوں نے ایسا کوئی کردار نہیں ادا کرنا؟

محمد مالک نے جواب میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ تحریک عدم اعتماد کے آنے سے 6 ماہ پہلے سے سے اس پر غور و فکر کر رہی تھی۔ عثمان بزدار، عادل خان اور ندیم بابر کی کارکردگی پر اسٹیبلشمنٹ کے تحفظات تھے۔ محمد مالک نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ آرمی چیف سے کسی نے کہا کہ حکومت کا شکوہ ہے کہ آپ کی طرف سے ان کو کام نہیں کرنے نہیں دیا جا رہا جس پر انہوں نے کہا کہ میں حلفاً کہتا ہوں کہ ہم نے اب تک صرف دو لوگوں کو تجویز کیا تھا۔ ایک وذارت داخلہ کے لئے اعجاز شاہ کو اور دوسرا نیشنل سکیورٹی کے لئے معید یوسف کو۔ اس کے علاوہ ہماری طرف سے کوئی ڈکٹیشن یا تجویز نہیں دی گئی تھی۔

محمد مالک کا کہنا تھا کہ آرمی کی لیڈرشپ نے اب بھی پوری کوشش کی ہے کہ حکومت اور عمران خان کے درمیان معاملات طے پا جائیں۔ اگر معاملات طے نہ پائے اور ڈیڈ لاک ختم نہ ہوا تو پورا نظام گر جائے گا اور اس کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان کو ہوگا۔