پچھلے دنوں کی گئی وزیراعظم کی تقریر کا بڑا چرچا ہے۔ تقریر بہت سے سوال پیدا کر گئی۔ جس میں بنیادی سوال ہماری حکومت کی اس وبا سے نبٹنے میں غیر سنجیدگی سے متعلق پیدا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو لاک ڈاؤن کی ناکامی کو ثابت کرنے کیلئے ہندوستان کی مثال دینا مناسب نہیں۔ مودی سرکار تو دنیا میں ناقص حکومتی کارگردگی کی ڈھیروں مثالیں قائم کر چکی ہے۔
اور یہ بات بھی اب واضح ہو چلی ہے کہ اتنا بڑے ملک کو جو کہ ثقافتی اور مذھبی تنوع کا مجموعہ ہے کو اکثریتی ثقافت اور مذہبی رجحانات کی دھونس سے شاید چلانا اب مشکل ہو۔ خشونت سنگھ نے ہندوستان کے اس المیے کو برسوں پہلے جان لیا تھا۔ ان کی کتاب End of India کو پھر سے پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ خشونت سنگھ نے اپنی کتاب کے ابتدائیے کی پہلی سطروں میں لکھا تھا کہ " کہ یہ ہندوستان کیلئے تاریک ترین دن ہیں۔ گجرات ، جو گاندھی کی جنم بھومی ہے، میں 2002 کے ابتدائی مہینوں کے فسادات اور اسکے بعد مودی کی الیکشن میں بھرپور اکثریتی جیت ہمارے ملک میں تباہی کا راستہ کھول دے گی۔۔ ہندو جنونیوں کا فاشسٹ ایجنڈا ایک ایسا انہونا تجربہ ہے کہ جس کی مثال جدید ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔" مودی کے ہیجانی فیصلوں کی مثال دینا وزیر اعظم کیلئے مناسب ہرگز نہیں۔ اور اس وزیر اعظم کیلئے تو قطعی نامناسب ہے جو اپنے آپ کو تاریخ کا ہونہار طالب علم سمجھتے ھوں۔
لاک ڈاؤن واحد حکمت عملی ہے جو کرونا وائرس سے نبردآزما ہونے کیلئے کسی حد تک ان ممالک میں جو بری طرح اس بیماری کی لپیٹ میں ھیں کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ گذشتہ دنوں تو پنجاب کی وزیر صحت نے بھی لاک ڈاؤن کی کارگر حکمت عملی کا برملا اعتراف کیا۔ اور صوبہ سندھ کے اعداد و شمار بھی لاک ڈاؤن کی حکمت عملی کی کامیابی کی کسی حد تک اچھی دلیل ہیں۔
میں تو نیویارک کے گورنر Andrew M. Cuomo کا پرستار ہو چلا ہوں کہ آجکل کی روزمرہ کی پریس بریفنگ کے دوران جن کے چہرے پہ کرب واضح ہوتا ہے اور جس ذہانت اور جان فشانی سے وہ شدید لپیٹ میں آئی نیویارک ریاست کو اس بیماری سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ مثالی ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ گورنر کا اپنا چھوٹا بھائی بھی کرونا وائرس کا شکار ہے۔ اس تناظر میں اس نے اپنی گذشتہ پریس بریفنگ میں کہا کہ " کرونا وائرس طبقاتی برابری کا بڑا حامی ہے۔" سب سے اہم بات یہ کہ گورنر نے لوگوں پہ یہ بات واضح کردی کہ یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ اگر اس بیماری کے سامنے زیادہ سمارٹ بننے کی کوشش کریں گے تو مت بھولئیے آپ اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ " میں اب نہیں جانتا کہ پچھلے ادوار میں ہمارے صحت کے نظام میں کیا خرابیاں ہوئیں۔ اب اس بیماری سے نمٹنا کس کا میدان ہے یہ میں نہیں جانتا ۔ کس کی انا اس سے نمٹنے میں روکاؤٹ ہے میں نہیں جانتا۔ ہمیں اب صرف بہتر ذرائع اور طریقے ڈھونڈنے ھیں کہ اس خطرناک بیماری سے لڑا جا سکے ۔"
حکومتی کارگردگی میں شامل سبھی پالیسی سازوں کیلئے گورنر کی باتوں میں تدبر ہے اور بہتر سوچنے کا مواد ہے۔ اس تناظر میں اگر ہمارے وزیر اعظم کی تقریر کو پرکھا جائے تو ان کی باتوں سے کسی واضح حکمت عملی کا اظہار نہیں ہوتا۔ ان کی پالیسی hit and trail کی پالیسی کا مظہر لگتی ھے۔ مثلاً نادار لوگوں کی امداد کو لے لیجئیے ۔ کل ھی میرے علم میں آیا کہ جنوبی پنجاب کے ان علاقوں میں بھی جو ابھی کرونا وائرس سے محفوظ ہیں پٹواری حضرات نے پی ٹی آئی کے کرتا دھرتا لوگوں سے نادار لوگوں کی فہرست کیلئے رابطہ کیا۔ اسے صرف سیاسی گرہی کہا جاسکتا ھے۔ اور نادار لوگ جو اس وائرس کی وبا کے بچاؤ کیلئے کئے گئے لاک ڈاؤن سے متاثر ہوئے ہیں پہلے ان تک امداد پہنچنی چاھیے تھی۔ تو نادار لوگوں کی امداد کی پالیسی پر عمل درآمد ہونے سے پہلے ہی اس پالیسی کی بنیادی خامیاں عیاں ہونے لگی ھیں۔
وزیراعظم کا یہ کہنا کہ نوجوان اس وبا کا شکار نہیں ہوسکتے یقیناً ایک گمراہ کرنے والا بیان ہے۔ جب کہ ہمارے ملک سے اور دیگر دنیا سے وبا کا شکار ھونے والے لوگوں کی عمروں کے متعلق اعداد و شمار وزیراعظم کے اس بیان کی تصدیق نہیں کرتے۔ ٹائیگر فورس کا قیام دیوانے کا خواب ہے اور یہ صرف سیاسی کشتی کے داؤ پیچ ہیں۔ اپنی حکومت کے قیام کے اوائل میں پی ٹی آئی کی حکومتی سیاسی داؤ پیچ کا کھیل جاری ہوگیا تھا۔ اور یہ داؤ پیچ کا کھیل کسی گلی کے تھڑے پہ آزمائے داؤ پیچ ہیں۔
وبا سے نمٹنے کی ایک مربوط پالیسی پہ بھی کام ہو سکتا تھا۔ اگر سب کچھ تدبر سے کیا جاتا۔ اب تو یوں لگتا ہے لوگ بے سہارا ہیں اور حکومت ان کی مدد اور بچاؤ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ مجھ جیسے غریبوں سے جاری ایک بھونڈے مذاق کا تسلسل ہے جو کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ جناب آپ ہی حکومت میں رہیں گے۔ آنے والے دنوں میں آپ ہی کی حکومت ہوگی جہاں مجھ غریبوں کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں وہاں یہ فیصلے تو ہو چکے یہ بات تو میری گلی میں رہنے والا ہر پھیری اور چھابڑی لگانے والا بھی اب سمجھ چکا ہے۔ آپ حکومت کیجئے ۔ ہاں مگر حکومت کرنا تو دانائی کا کام ھے ۔ وہ مول ملنے سے تو رہی۔ شیخ رشید تو اپنی دانائی کی دوکان بڑھا گئے اب فردوس عاشق اعوان کی دانائی سے من کو خوش کیجئے۔
مصیبت کے دنوں میں مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اختلاف سیاسی ہوتے ہیں وہ قبائلی خاندانی دشمنیاں نہیں ہوتے ۔ ہاں قبائلی نظام کی جمہوری روایات کو تو اپنایا جاسکتا ہے۔ (افغان جنگ کی ۸۰ کی دھائی سے پہلے پشتون قبائلی نظام اپنی دیگر خامیوں کے باوجود جمہوری اقدار پہ یقین رکھنے والا نظام تھا۔) اپنی ابتدائی کتاب میں موجودہ وزیر اعظم نے قبائلی نظام کو بہت سراہا تھا۔ اسی نظما کی مربوط حکمت عملی بنانے کے عمل سے سیکھنے کا تقاضہ تھا کہ تمام عوامی پذیرائی رکھنے والی سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا جاتا ۔ لوگوں سے رائے لی جاتی ۔ سول سوسائٹی کو ساتھ بٹھایا جاتا لوکل گورنمنٹ کے نظام کو موثر کیا جاتا اور صرف ثانیہ نشتر کی ذہانت پہ بھروسہ نہ کیا جاتا۔ سول بیوروکریسی کو فعال کیا جاتا جو یقیناً فعال نہیں ہے۔ مذہبی گروہوں سے کچھ سختی کی جاتی صرف طارق جمیل کی انا پہ بھروسہ نہ کیا جاتا تو کسی بہتر نتیجے کی توقع کی جاسکتی تھی۔ اب بہت دیر ہو گئی۔
لگتا ہے ہمارے ڈاکٹر دوست کی بات سچ ہے کہ یہاں وبا تو دسمبر کے آخری دنوں میں آ چکی تھی۔ اعداد و شمار تو ہمارے ہاں ہیں نہیں جس نے مرنا تھا وہ اس وبا سے مر گئے اور جو باقی بچے وہ اس حکومت کے مطابق immune ہو چکے ہیں۔ یہ تو وہ مریض اب سامنے آرہے ہیں جن کے ٹیسٹ کئے گئے۔ ایسا شاید نہ ہو مگر اب دل کے بہلانے کو یہ خیال بھی بھلا لگتا ہے۔ ورنہ یہاں تو وہ ماتم برپا ہونے والا ہے کہ جسکا سوچ کر اب رات کو نیند بھی کم آنے لگی ہے۔