وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی حکومت جب سے گندم بحران میں ایف آئی اے کے نرغے میں آئی ہے حکومتی ایوانوں میں کھلبلی ہے جس کے باعث انتظامی بد حواسی کا دور دورہ ہے۔ اور ایسا ہی سلسلہ صوبے کی طاقتور افسر شاہی کے ہاں بھی سامنے آرہا ہے۔ اب اس سال کا گندم خریداری کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لئے حکومت اور انتظامی مشینری انکوائیریوں کے دباؤ کے نتیجے میں متحرک ہیں۔ اور اس حد تک جایا جا چکا ہے کہ اگلے سال کی گندم کی فصل کے بیج کیلئے جو گندم مختلف اضلاع میں خصوصی طور پر بیج کمپنیوں اور عام کسانوں کی جانب سے معمول کے مطابق محدود رقبے پر کاشت کی گئی تھی، محکمہ خوراک متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کے ذریعئے غیرقانونی طور پر دھونس اور زبردستی کے ساتھ عام خوراک کے مقصد کیلئے کھیتوں سے اٹھا رہا ہے۔
جس کے بعد فوڈ ڈیپارٹمنٹ ذرائع کے مطابق اب خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اگلے سال گندم کی فصل میں 30 فیصد سے زائد کی کمی ہوجائے گی جس کی وجہ سے صوبے میں گندم کا بڑا بحران پیدا ہوجائے گا۔ نیا دور کو فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، وہاڑی، لودھراں ساہیوال ، پاکپتن اور اوکاڑہ کے اضلاع میں سروے سے معلوم ہوا کہ متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کے زبانی احکامات پر محکمہ خوراک کے اہلکار اور افسران درمیانے درجے کے کاشتکاروں کے پاس جمع شدہ بیج اور گھریلو استعمال کے لئے جمع شدہ گندم بھی اٹھوا رہے ہیں۔
دوسری جانب مختلف سیڈ کپمنیز کے نمائندگان نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے مختلف اضلاع میں اگلے سال کے بیج کے لئے خصوصی کاشت کروا رکھی تھی۔ جسے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز نے غیر قانونی طور پر زبردستی عام گندم کی مد میں اٹھوا کر اپنے سٹاک میں شامل کر لیا۔ جبکہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے انہیں ہدایت کی ہے کہ اسکے ضلع کی حدود میں سے اٹھائے جانے والے سیڈ کوالٹی گندم کے بدلے دوسرے ضلع سے سیڈ کوالٹی گندم حاصل کر لی جائے تاہم اس عمل کو دونوں اضلاع کے ڈسٹکٹ فوڈ کنٹرولرز کی اجازت سے مشروط کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ عجیب و غریب شرط کاشتکاروں اور بیج کا کاروبار کرنے والی کپنیوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہے بلکہ کرپشن کا ایک اور دروازہ بھی ہے۔
نمائندگان نے بتایا کہ سیڈ کمپنیز کو اس سال بیج گندم کی خرید نہ کرنے دی گئی تو اگلے سال معیاری بیج نہ ہونے کے سبب گندم کی پیداوار شدید متاثر ہو گی۔ انہوں نے بھی اس کمی کا تخمینہ 30 فیصد تک لگایا۔ جس سے ایسا گندم بحران جنم لے گا کہ اسے سنبھالنا اس حکومت کی بس کی بات نہیں ہوگی۔
نیا دور کو ملنے والی معلومات کے مطابق وفاقی وزارت فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ نے 23 اپریل کو پنجاب سیڈ کارپوریشن اور دیگر پرائیویٹ سیڈ کمپنیوں کی درخواست پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو مراسلہ بھیجا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پنجاب حکومت کے اقدامات سے گندم کی قلت ہونے کا خدشہ ہے۔ جبکہ صوبائی وزیر خوراک علیم خان سے سیڈ کمپنیوں کے نمائندگان کی ایک ملاقات کے دوران معاملات طے ہوئے جس کے نتیجے میں 5 مئی کو صوبائی وزارت خوراک سے ایک مراسلہ نکلا جس میں تمام ڈپٹی کمشنرز کو بیج کے لئے گندم کی خریداری سے روکا گیا اور اس مقصد کے لئے گندم کی نقل و حمل کی اجازت دی گئی۔ تاہم ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر سے ان احکامات کے بر خلاف آرڈرز نکل رہے ہیں اور اب تک نافذ بھی ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اب تک سیڈ کمپنیاں اور عام کاشتکار ہزاروں ٹن سیڈ کوالٹی گندم سے محروم ہو چکے ہیں۔ اور اسکا براہ راست نتیجہ اگلے سال کی فصل کی قلت کی شکل میں نکلے گا۔
نیا دور نے وزارت خوراک پنجاب کے ترجمان کو اس معاملے پر سوالنامہ بھجوایا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں موصول ہوا۔