دین اور مذہب میں بہت بڑا فرق ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں عام طور پر اسلام کو مذہب کہا جاتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پورے قرآن مجید میں اور حدیث شریف کے پورے ذخیرے میں اسلام کے لیے مذہب کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے لیے ہمیشہ دین ہی کا لفظ مستعمل ہوا ہے۔
سورۃ آلِ عمران میں فرمایا گیا ہے: (آیت ۱۹)
’’یقیناً اللہ کے ہاں (اُس کی بارگاہ میں مقبول ) دین تو صرف اسلام ہے‘‘
دین اور مذہب میں بنیادی فرق کو سمجھ لیجیے! مذہب ایک جزوی حقیقت ہے۔ یہ صرف چند عقائد (dogma) اور کچھ مراسم عبودیت (rituals) کے مجموعے کا نام ہے جبکہ دین سے مراد ہے ایک مکمل نظام حکومت یعنی حکومت الہیہ جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہو۔ گویا مذہب کے مقابلے میں دین ایک بڑی اور جامع حقیقت ہے۔
اس پس منظر میں یہ کہنا تو درست ہو گا کہ اسلام مذہب نہیں ہے۔ دین اسلام میں مذہب کے عناصر شامل کیے گئے ہیں تاکہ دین کی حاکمیت اور افادیت کو ختم یا کمزور کیا جائے اور دین اسلام کی اصل غرض و غایت کو پس و پشت ڈال کر دین اسلام کو محض عبادات و رسوم و رواج تک محدود کر دیا جائے۔ خدائی احکامات اور قوانین کو عقائد میں بدل کر دین اسلام کو محض ایمانیات اور پھر اس کے مراسم عبودیت (نماز، روزہ، حج اور زکوۃ) تک رکھا جائے۔
چنانچہ دین اسلام کی شکل مذہب کی صورت میں قبولیت پا گئی کیونکہ مذہب خطرہ نہیں بلکہ ڈھال بن کر حکمران طبقات، سرمایہ دار، جاگیردار اور شاہوکاروں کو کئی معاملات میں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس لئے اسلام بطور مذہب پسند کیا گیا اور کیا جاتا ہے۔ دین اسلام ایک نظام حکومت کی بات کرتا ہے۔ متبادل حکومت اور بادشاہت الہیہ کے قیام پر زور دیتا ہے۔ انبیاء اکرام کا اولین فرض بھی یہی تھا کہ زمین پر اللہ کی حکومت قائم کی جائے۔ انسانوں کو جابر و ظالم زمینی خداؤں (حکمرانوں ) سے نجات دلا کر مساوات پر مبنی نظام الہیہ قائم کر کے، رزق کی تقسیم کی جائے۔
اس حوالے سے ایک اہم حقیقت پر غور کیجیے! کسی ایک خطہ زمین میں مذاہب تو بیک وقت بہت سے ہو سکتے ہیں لیکن دین ایک وقت میں صرف ایک ہی ہو سکتا ہے۔ نظام تو لازماً ایک ہی ہو گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کسی خطہ زمین پر یا کسی ایک ملک میں بیک وقت قائم ہوں۔ حاکمیت (sovereignty) تو کسی ایک ہی کی ہو گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ملوکیت اور جمہوریت دونوں بیک وقت کسی ملک میں نافذ ہو جائیں۔ نظام ایک ہی رہے گا۔ اللہ کا نظام ہو گا یا غیر اللہ کا ہو گا۔ نظام دو ہرگز نہیں ہو سکتے، جبکہ ایک خطہ زمین میں مذاہب بیک وقت بہت سے ممکن ہیں جبکہ نظام ایک ہی غالب و برتر ہوگا۔ وہی حقیقت میں ’’نظام‘‘ کہلائے گا اور دوسرا نظام سمٹ کر اور سکڑ جائے گا یا ختم ہو جائے گا۔
دین اسلام کے ساتھ بھی یہی واردات ہوئی ہے کہ وقت کے حکمرانوں، طاقتور طبقات نے اپنی حاکمیت کو بچانے اور برقرار رکھنے کے لئے دین کی بجائے مذہب کو قبول کیا۔ مذہب کی سرپرستی کی اور مذہب کے فروغ کے لئے دل کھول کر سرمایہ کاری بھی کرتے رہے اور تاحال سرمایہ کاری کر بھی رہے ہیں۔ 14 سو سال پیچھے نہیں جاتے ہیں۔ آج کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان، آصف زرداری، شریف برادران سے لے کر ملک ریاض تک کے لئے کیا دین قابل قبول ہے۔ ہرگز نہیں ہے۔ مگر مذہب کو سب سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔
ملک ریاض حسین مذہب پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں مگر جب دین (حکومت الہیہ ) کی بات ہو گی تو یہ سارے بھاگ جائیں گے بلکہ دین دشمن قوتوں پر سرمایہ کاری کریں گے۔ کیونکہ دین فائلوں کو پہیے لگانے کی اجازت ہرگز نہیں دے گا اور نہ ہی انسانوں کی لاشوں پر بحریہ ٹاؤن بنانے دے گا۔
مذہب اور دین میں یہی فرق ہے۔ دین اسلام کو مذہب بھی انہی شاہوکاروں، سرداروں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور پالتو مولویوں نے بنایا ہے۔ یہ سب مسلمہ بن کذاب کے پیروکار ہیں۔