چودہ سالہ سحر کا تعلق پنجاب کے ضلع چینوٹ سے ہے اور ان کا خاندان کچھ سال پہلے راولپنڈی منتقل ہوا جہاں سحر نے زندگی کے شب و روز گزارے۔ سحر کے بارہ بہن بھائی ہیں اور والدین کو اُن سے بہت پیار تھا۔ سحر ابھی چھوٹی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور تمام زمہ داریاں اُن کی والدہ پر آگئیں۔ گھر والوں کی طرح گاؤں والے بھی بچپن میں اُن کو لڑکا سمجھتے تھے مگر عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ سحر کے شخصیت میں کچھ ایسی تبدیلیاں آگئی جو گھر والوں کے لئے قابل قبول نہیں تھیں۔
یوں تو وہ لڑکوں کا لباس پہنتی تھی مگر اُن کو بناؤ سنگار میں دلچسپی تھی اور وہ لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں دلچسپی نہیں لیتی تھی ۔ سحر کو بھی لگتا تھا کہ وہ دوسرے لڑکوں سے مختلف تھی اور وہ لڑکوں کا لباس پہننے میں دلچسپی نہیں لیتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھراور گاؤں والوں کو معلوم ہوا کہ وہ خواجہ سرا ہے جس کی وجہ سے گاؤں کے لڑکے اُس کو چھیڑتے تھےاور مذاق اُڑاتے تھے جو اس کے گھر والوں کو ناگوار گزرا کرتا۔ اسی وجہ سے گھر والوں نے اُن کا باہر جانا بند کردیا جس کی وجہ سے سحر ایک اذیت سے گزرتی تھی ۔ سحر کہتی ہے کہ وہ مسلسل باہر جانے کی ضد کرتی تھی جن کی وجہ سے بھائی اس پر تشدد کرتے تھے اور پھر اس کو گھر سے نکال دیا گیا۔
سحر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ گھر والوں نے مجھے جب نکالا تو میں سڑک کے کنارے بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ اب میں کہاں جاؤنگی مگر پھر مجھے کسی نے بتایا کہ اسلام آباد میں ایک مدرسہ کھولا گیا ہے جہاں خواجہ سرا کو رہائش کے ساتھ ساتھ کھانا بھی دیا جاتا ہے تو میں نے لوگوں سے پوچھ کر مدرسے کا پتہ پوچھا اور میں یہاں پہنچ گئی جہاں مجھے گھر جیسا ماحول اور پیار ملا ۔
وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں رانی خان نامی خواجہ سرا نے خواجہ سراؤں کی دینی تربیت کے لئے پہلا مدرسہ کھول رکھا ہے۔ رانی خان کی ابتدائی پرورش پنجاب میں ہوئی مگر ان کو تعلق خیبر پختونخوا کے خٹک قبیلے سے ہے اور وہ گزشتہ بارہ سال سے نجی محفلوں میں رقص کرتی آرہی ہے۔ رانی خان نے کچی آبادی میں دو کمروں پر مشتمل ایک مکان میں اپنا مدرسہ کھول دیا ہے جہاں تقریبا چوبیس خواجہ سرا اس وقت زیر تعلیم ہے۔ رانی خان نے بیس سال تک نجی محفلوں میں رقص کیا اور پھر اُن کی زندگی میں ایک تبدیلی آئی اور انھوں نے اپنا پلاٹ بیچ کر مدرسہ بنایا۔
رانی خان نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اُن کے ساتھ بھی سماج نے وہی کیا جو عام خواجہ سرا کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ میرے ساتھ کچھ زیادہ ہوا کیونکہ میرا تعلق ایک بنیاد پرست پشتوں گھرانے سے تھا ۔ وہ کہتی ہیں کہ قران کی ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنی امی سے حاصل کی اور کچھ عرصے وہ لال مسجد میں بھی زیر تعلیم تھی جہاں کسی نے بھی ان کو قبول نہیں کیا۔ مگر انھوں نے ہمت قائم رکھی اور پرویز مشرف کے وقت میں جب لال مسجد کے خلاف اپریشن ہوا تو ان کی تعلیم بھی متاثر ہوئی اور اخر کار انھوں نے رقص کی جانب جانے کا فیصلہ کیا ۔ وہ کہتی ہے کہ نجی محفلوں میں جاکر انھوں نے کئی سال رقص کیا اور خوب کمائی کی اور پھر انھوں نے ایک پلاٹ بھی خریدا۔
زندگی میں آنے والے تبدیلی پر رانی خان نے کہا کہ وہ رقص کرتی تھی اور دینی تعلیمات سے دور رہتی تھی اور مجھے نہیں یاد کہ میں نے رمضان کے علاوہ کبھی نماز پڑھی ہو مگر ایک حادثے نے مجھے میرے رب کے قریب کیا۔ وہ کہتی ہے ایک خواجہ سرا دوست کے انتقال کے بعد وہ ان کے خواب میں آئی اور ان کا چہرہ بگڑا ہوا تھا اور وہ مجھے اللہ کے عذاب کی وعید سنا رہی تھی۔ اس خواب کے بعد میں پوری رات نہیں سوسکی اور صبح اُٹھنے کے بعدغسل کرکے نماز پڑھی اور اللہ سے اپنے گناہوں کا توبہ کرکے دین کی جانب آگئی۔
رانی خان کہتی ہے کہ جب میں نے رقص کو ترک کیا تو میرے ہزاروں چاہنے والے گنتی میں رہ گئے اور سب ایک ایک کرکے چلے گئے۔ میرے دل میں مدرسے کی خواہش تو آگئی مگر اب میرے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ میں اس کو عملی جامہ پہناؤں اس لئے میں نے اپنا کل اثاثہ پلاٹ بیج دیا جس کے بعد بہت مشکلوں سے مجھے اسلام آباد کی کچی آبادی میں ایک گھر کرائے پر ملا۔ رانی خان کہتی ہیں کہ دنیا کی نسبت پاکستان میں خواجہ سراؤں کو نہ تو حقوق حاصل ہے اور نہ ہی وسائل جہاں وہ زندگی آرام سے جی سکے۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ راستے میں جاتے ہوئے دیکھتے ہو کہ یہ لڑکوں کا سکول اور کالج ہے ، یہ لڑکیوں کا سکول اور کالج ہے ، یہ لڑکوں کا دینی مدرسہ ہے اور یہ لڑکیوں کا لیکن اپ نے کہاں پر بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ یہ خواجہ سراؤں کا تعلیمی ادارہ یا مدرسہ ہے کیونکہ ہم نے کبھی ان کے حقوق پر توجہ ہی نہیں دی۔ رانی خان کو اسی سوچ نے مدرسہ بنانے پر مجبور کیا جہاں خواجہ سرا ایک انسان دوست ماحول میں زندگی گزار سکے۔ وہ کہتی ہے کہ نہ صرف وہ خواجہ سراؤں کے لئے مدرسہ چلاتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ بیمار خواجہ سراؤں کا علاج بھی کرتی ہیں اور ان کے مشکلات میں بھی کام آتی ہے کیونکہ اس گھٹن زدہ سماج میں خواجہ سرا ہونا ایک گالی ہے۔ رانی خان نے کہا کہ رات کے وقت وہ نجی محفلوں میں جاتی ہے اور اپنے ساتھی خواجہ سراؤں کو دین کی تعلیم دیتی ہے تاکہ وہ بھی ان کے ساتھ اس کاروان میں شامل ہوجائے۔
مہوش (فرضی نام) کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ سے ہے اور وہ بھی معاشرے اور گھر میں اس سلوک کا شکار ہوئی جو ہر خواجہ سرا کی کہانی ہے۔ مہوش بھی نجی محفلوں میں جاتی ہے مگر وہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدرسے میں آتی ہے اور واپس چلی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے جب گھر والوں نے ان کو دھتکار کر نکالا تو انھوں نے گھر سے بھاگ جانے کا فیصلہ کیا۔ اب میں کام کے ساتھ ساتھ یہاں دینی تعلیم حاصل کرتی ہو جہاں نہ صرف مجھے تحفظ حاصل ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مجھے گھر جیسا پیار ملتا ہے اور جب بھی میں اداس ہوتی ہوں تو یہی لوگ ہوتے ہے جو مجھے سینے سے لگاتے ہیں اور میرا درد محسوس کرتے ہیں۔