عمران خان کی وزارت عظمیٰ میں اسرائیل کو تسلیم کیے جانے پر پاکستان کے نوے فیصد عوام کو یقین ہے۔دس فیصد کو ابہام ہے۔ گزشتہ سال خبر تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم نے پاکستان کاخفیہ دورہ کیا ہے۔اس خبر پر کافی دنوں تک تبصرے بھی جاری رہے۔ دورہ سعودی عرب کے دوران بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ عمران خان سے اسرائیلی حکام نے ملاقات کی تھی۔ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم ہونے کے بعد سے پاکستان کے عام عوام میں اس امر پر یقین پختہ ہوگیا ہےکہ عمران خان کے دور حکومت میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا جائے گا۔حالات و واقعات اور نئی بنتی صورتحال میں یہ بات کہنا مغالطہ نہیں ہوگاکہ پاکستان رواں سال میں اسرائیل سے امن معاہدہ کرنے کا پل صراط عبور کرلے گا۔
پاکستان کےسیاسی حلقوں سمیت سنجیدہ مذہبی طبقات بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ممنوع قرار نہیں دیتے ہیں مگر فلسطین کی آزادی کی مانگ سے مشروط ضرور کیے جانے کی بات کی جاتی ہے۔ فلسطین کی آزادی اور دو ریاستی حل کا مطالبہ جائز بھی ہے۔ اسرائیل کے اندر بھی بائیں بازو کے طبقات سمیت عرب اور مسلمان فلسطین کی آزادی کےحق میں ہیں۔ اسرائیل کےلئے مسلم دنیا سے تعلقات کےلئے فلسطین کا مسلہ حل کرنا گریز ہےبصورت دیگر اسرائیل کےلئے پائیدار تعلقات رکھنا مشکل ہوگا۔
پاکستان میں فلسطینی عوام کے ساتھ جذباتی وابستگی ضرور رہی ہے مگر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کی شہادت کے بعد اس میں بتدریج کمی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں اب کبھی کبھار رسمی طور پر فلسطین کا نام لے لیتی ہیں۔ پاکستان کی شہ رگ کے کاٹے جانے پر حکومت اور عوام نے رسمی احتجاج کیا تھا توفلسطین کا معاملہ ہی اور ہے۔متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہے۔ سعودی عرب بھی نرم گوشہ رکھتا ہے۔ حال ہی میں سوڈان کے ساتھ بھی امن معاہدہ طے پا گیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل میں حالیہ عام انتخابات میں منصور عباس کی شکل میں مسلمان عرب قیادت سامنے آئی ہے۔ منصور عباس کی جماعت نے پانچ نشستیں حاصل کیں ۔جو انتہائی اہمت کی حامل ہیں۔منصور عباس کے نئی حکومت میں شمولیت کے سوفیصد امکان ہیں۔معروضی حالات کے تناظر میں منصور عباس کی ضرورت بھی ہےتاکہ مسلم دنیا کو اسرائیل کا سیکولر چہرہ بھی دیکھایا جاسکےاور مسلم دوستی بھی باور کرائی جا سکے۔مسلم ممالک کے ساتھ نئے تعلقات میں آسانی ہو سکتی ہےاور سافٹ امیج تعمیر ہو سکتا ہے۔فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ بات چیت سمیت تعلقات کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ امن معاہدے کےلئے کئی بیک دوڑ چینل مصروف عمل ہیں ۔ متحدہ عرب امارات کے پاکستان کا تجارتی معاہدہ اہم پیش رفت ہے۔ سعودی عرب کی عمران خان کو دورے کی دعوت کو بھی نئے حالات کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں معاشی ابتری بھی اس امر کی چغلی کھاتی ہے کہ نئے معاشی راستے اپنانے کی ضرورت ہے۔امریکہ نے چین کی عرب ممالک کے ساتھ بڑھتی قربت اور ایران کے ساتھ معاہدوں کے بعددوست ممالک کو روڈ بیلٹ کی تجویز دی ہے۔اس خبر سے بھی امن معاہدے کی ضرورت کو تقویت ملتی ہے۔
امریکی روڈ بیلٹ کے مجوزہ منصوبے میں پاکستان کی حیثیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان امریکہ کانظریاتی اتحادی ہے۔لاکھ اتار چڑھاؤ میں بھی پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور چین کی ہمسائیگی میں مضبوط پاکستان کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان سی پیک کےمتبادل کا تقاضہ بھی تو لازمی کرے گا۔
چین امریکہ معاشی سرد جنگ میں پاکستان کی ضرورتوں کےلئے متحدہ عرب امارات ،سعودی عرب اور اسرائیل اتحاد اک نئے دور کا آغاز ہے۔ یہ کھچڑی پک چکی ہے۔بوقت ضرورت ڈھکن اٹھانا باقی ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ ستمبر2021میں سب امکانات سامنے آجائیں گے اور اسرائیل کا دوست نیاپاکستان دنیا کی صف میں کھڑا ہوگا۔جس کا تمام تر سہرا عمران خان کے سر ہوگا۔